لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

یہ دسمبر 2018ء کی بات ہے، اس وقت جو بھی وزیرِ خزانہ اسد عمر کو ملتا تو وہ اسے یہی کہہ رہے ہوتے تھے کہ معیشت کنارے سے لگی ہوئی ہے، بہتری آنا شروع ہوچکی ہے، اقتصادی صورتحال بہتری کی جانب گامزن ہے۔ اس بات کو ثابت کرنے کے لیے وہ 2 اعشاریوں کی طرف اشارہ کرتے تھے، جیسے زرِمبادلہ کے ذخائر میں کمی کو سعودی عرب سے آنے والے 1 ارب سے سہارا ملا اور نجی شعبے کی جانب سے قرضوں میں اضافہ ہوا، جسے وہ معیشت میں آنے والی بہتری کی نشانی بتاتے ہیں۔

دسمبر کے آخر میں، انہوں نے ٹوئیٹ میں کہا کہ، رواں سال جولائی سے اکتوبر تک نجی شعبے نے 360 ارب روپے کے قرضے اٹھائے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے میں 110 ارب روپے کے قرضے اٹھائے گئے تھے۔ رواں سال جولائی سے نومبر تک 36 فیصد کے اضافے کے ساتھ 212 ارب روپے کے زرعی قرضے اٹھائے گئے جبکہ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 156 ارب روپے کے قرضے اٹھائے گئے تھے۔‘

پھر صرف ایک ہفتے پہلے انہوں نے عرب نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ، ’مجھے یقین ہے کہ آپ نے لوگوں کو یہ کہتے سنا ہوگا کہ پاکستان میں کاروبار میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی’۔ وہ آگے کہتے ہیں کہ، ’لیکن اگر نجی شعبے کی جانب سے لیے گئے قرضوں پر غور کیا جائے تو ان سے کاروبار میں سرمایہ کاری کے رجحان کا اندازہ لگانے میں مدد ملتی ہے، اور یہ بھی اندازہ ہوتا ہے کہ رواں سال کی ابتدائی سہہ ماہی میں ہونے والی سرمایہ کاری میں گزشتہ برس کی ابتدائی سہہ ماہی کے مقابلے میں 5 گنا اضافہ ہوا۔‘

اسی انٹرویو میں انہوں نے اپنے اور اپنے نقادوں کے درمیان فرق کو واضح کیا، جسے اخبار نے کچھ اس طرح لکھا، ’وزیر نے کہا کہ تنقید نگاروں کی جانب سے ’خوشگوار اور ناخوشگوار‘ منظرنامے پیش کرنے کے باوجود، ان کی جانب سے پاکستان کے مستقبل کو لے کر پراُمید ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ اعداد و شمار کی بنیاد پر معاملات کو دیکھتے ہیں۔‘

میں یہاں صرف 2 مثالیں ہی پیش کر رہا ہوں، لیکن ویسے تو ایسی کئی جگہیں ہیں جہاں وزیرِ خزانہ اسی اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے روشن امیدیں قائم کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ تو اس کہانی کو بتاتے ہوئے اس بات کا تذکرہ ہوا کہ نجی شعبے اور زراعت میں قرضوں کی جو تقسیم بڑھ رہی ہے وہ معاشی بحالی کی ایک علامت ہے۔

مگر گزشتہ ہفتے، انہی اعداد و شمار کی بنیاد پر اسٹیٹ بینک ایک بالکل مختلف نتیجے پر پہنچی۔ اپنی دوسری سہہ ماہی رپورٹ میں بڑھتے ہوئے افراطِ زر کے ساتھ ’اقتصادی سرگرمی کی رفتار میں نمایاں کمی‘ کا تذکرہ کیا گیا۔ اس کے علاوہ یہ بھی بتایا گیا کہ پہلی سہہ ماہی (جولائی تا ستمبر 2018ء) کے مقابلے میں دوسری سہہ ماہی (اکتوبر تا دسمبر 2018ء) میں لارج اسکیل مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) میں واضح کمی نظر آئی۔

مالی سال کے پہلے نصف حصے یعنی جولائی سے دسمبر تک، ایل ایس ایم میں گزشتہ برس کے اسی عرصے میں ہونے والی 6.6 فیصد پیداوار کے مقابلے میں 1.5 فیصد کمی واقع ہوئی۔ افراطِ زر میں اسی طرح اضافہ ہوتا گیا اور (بڑی سود ادائیگیوں اور ’دفاعی اخراجات میں یکایک اضافے‘ کے باعث) مالی خسارے میں تیزی سے ہونے والے اضافے سے افراطِ زر پر قابو پانے میں اور بھی زیادہ مشکل پیش آ رہی ہے۔

مالی سال کے پہلے نصف حصے کے اعداد و شمار پر نگاہ ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ اسٹیٹ بینک نے نصف فیصد کے ساتھ اقتصادی پیداوار کی شرح کو کم درجہ بخشا اور یہ کہا کہ سال کے آخر تک شرح 3.5 فیصد سے 4 فیصد کے آس پاس رہنے کی امید ہے۔ جبکہ حقیقی ہدف 6.2 فیصد کے آس پاس تک سوچا گیا تھا۔

تو ہمیں ان بڑی سطح پر اٹھائے گئے قرضوں سے کیا حاصل ہوا جس کا بار بار تذکرہ وزیرِ خزانہ نے کیا تھا؟ انہوں نے کس طرح اس وقت اقتصادی بہتری دیکھ لی، جبکہ انہی اعداد و شمار کو دیکھتے ہوئے اسٹیٹ بینک ’پیداوار میں قابلِ ذکر کمی‘ اور اقتصادی سرگرمی کی رفتار میں مزید کمی ہوتے دیکھتی ہے؟ جب صنعتی سرگرمی میں کمی ہو جبکہ نجی شعبے کی جانب سے اٹھائے گئے قرضوں میں یکایک اضافہ ہو، تو اس معاملے کو یہ کس طرح بیان کرتے ہیں؟

تو معاملہ کچھ یوں ہے: ’اس رجحان کی بڑی وجہ درآمداتی لاگت کی قیمت میں اضافہ اور روپے کی قدر میں کمی اور توانائی کے شعبے میں گردشی قرضے کے علاوہ (پی او ایل، لوہے، گاڑیوں، کھادیں، الیکٹرانکس اور شکر کے شعبے میں) بڑی سطح پر غیر فروخت شدہ حاضر مال کے باعث دباؤ ہے۔‘

رپورٹ کے مطابق، جہاں چند (توانائی، کپڑے اور سیمنٹ کی) صنعتیں صلاحیت میں اضافے (یعنی سرمایہ کاری) کے لیے قرضے لیتی رہی ہوں مگر وہیں اکثر اٹھائے گئے قرضے سرمایہ کاری کے لیے نہیں تھے۔ دراصل نجی شعبہ نے اپنی قیمتوں میں اضافے کے نتیجے میں بڑی سطح پر قرضے لیے اور خود کو بحران سے بچانے کے لیے یہ قرضے لیے۔ اقتصادی بحالی کی علامت سے کہیں دُور، ان اعداد میں زبردست اضافے کے پیچھے دراصل صنعتی اداروں کی جانب سے خود کو سہارا دینے کی بھرپور کوششیں کارفرما تھیں۔

اب زرعی قرضوں کا کیا معاملہ ہے؟ اس حوالے سے اس رپورٹ نے پہلے اہم فصلوں اور اس کے ساتھ ساتھ زرعی پیداوار کے انتظام سے وابستہ خدماتی شعبے کی پیداوار میں شدید کمی کا احاطہ کیا جسے دیگر وجوہات کے ساتھ پانی کی قلت اور ڈی اے پی کھادوں کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے جوڑا گیا ہے۔

’مالی سال 2018ء کی دوسری سہہ ماہی کے دوران زرعی قرضے کی تقسیم کی شرح 39.4 فیصد تھی جو مالی سال 2019ء کی دوسری سہہ ماہی کے دوران گھٹ کر 14.2 فیصد تک آگئی۔‘ مطلب یہ کہ مجموعی اعداد میں بھلے ہی اضافہ نظر آتا ہو مگر درحقیقت کمی کا رجحان موجود ہے۔

اور مجموعی طور پر اعداد میں اضافہ کیوں ہوا؟ تو اس کی وجہ ہے کھاد کی قیمت میں 16.7 فیصد اضافہ، پھر اس کے علاوہ ڈی اے پی کھاد کی قیمتوں میں زرِ مبادلہ کی شرح میں کمی کے سبب مہنگی بین الاقوامی قیمتوں کے باعث اضافہ۔

تو جناب زراعت میں بھی صنعت جیسا ہی رجحان پایا جاتا ہے، زمین پر کھڑی فصل تباہ ہوجائے، اہم فصل کی پیداوار میں کمی واقع ہوجائے، زرعی لاگت کی قیمت میں اضافہ ہوجائے اور پانی کی شدید قلت کا سامنا ہوجائے تو کسان اس قسم کی صورتحال میں خود کو بحران سے بچانے کے لیے قرضے لینے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ صنعتی اور زرعی شعبے میں قرضوں کا اضافہ اقتصادی بحالی سے زیادہ لوگوں کی جانب سے خود کو زندہ رکھنے کی بڑھتی ہوئی شدید خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔

اس سے پہلے، حکومت پر اس لیے حملہ کیا جا رہا تھا کیونکہ اعداد و شمار بیرونی قرضے میں تیزی سے ہوتے اضافے کو ظاہر کر رہے تھے۔ ان کی جانب سے اپنے دفاع میں یہ درست کہا گیا کہ اس قدر اضافے کا سبب زرِ مبادلے کی کمی ہے نہ کہ نئے قرضے، وہ صحیح تھے۔ جب تک دونوں اعداد و شمار کے نتیجوں کا الگ الگ اور سیاق و سباق کے بغیر جائزہ نہیں لیا گیا تب تک اصل کہانی پتہ نہیں چلی۔

مگر اس کے بعد وزیرِ خزانہ پیچھے مڑے اور ٹھیک یہی کام کیا اور ان 2 اعداد وشمار کے نتیجوں کی بنیاد پر بحالی کا شور مچانا شروع کردیا۔ اب جب صنعت اور زراعت سے متعلق ان اعداد و شمار کے نتیجوں کو ان کے سیاق و سباق کے ساتھ دیکھا گیا تو ایک بالکل ہی مختلف کہانی نظر آئی جسے وزیرِ خزانہ نے گھومانے کی کوشش کی تھی۔


یہ مضمون 28 مارچ 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (2) بند ہیں

KHAN Mar 29, 2019 05:00pm
وزیرِ خزانہ خود بھی گھوم جائیں گے۔
SHAHID SATTAR Mar 30, 2019 10:47am
The nation keeps on dreaming. After all that is what the slogans and speeches are meant to achieve. Rest is fine with the world.