راکٹ حملے کے ایک ہفتے بعد اسرائیل نے غزہ کا سرحدی راستہ کھول دیا

01 اپريل 2019
دونوں راستوں کو فلسطین سے فائر ہونے والے راکٹ کے بعد پیر کے روز بند کردیا گیا تھا—فوٹو: اے ایف پی
دونوں راستوں کو فلسطین سے فائر ہونے والے راکٹ کے بعد پیر کے روز بند کردیا گیا تھا—فوٹو: اے ایف پی

یروشلم: اسرائیل نے فلسطینی علاقے سے راکٹ حملے کے بعد غزہ کی محصور پٹی کے ساتھ ایک ہفتے تک بند رہنے والی اپنی کراسنگ کھول دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس بارے میں وزارت دفاع کے شعبہ سی او جی اے ٹی، جو کراسنگ کے معاملات سنبھالتا ہے، کی ترجمان کا کہنا تھا کہ ایریز کراسنگ (معبر بیت حانون) کو عام عوام جبکہ کرم ابو سالم کو اشیا کی نقل و حمل کے لیے دوبارہ کھول دیا گیا۔

خیال رہے کہ ان دونوں راستوں کو فلسطین سے فائر ہونے والے راکٹ کے بعد پیر کے روز بند کردیا گیا تھا جس میں 7 اسرائیلی شہری زخمی ہوگئے تھے اور جواب میں اسرائیل کی جانب سے بھی فضائی حملہ کیا گیا تھا۔

دونوں اطراف سے فضائی حملے کے تبادلے کے بعد حماس نے جنگ بندی کا اعلان کردیا تھا جس کے لیے مصر نے ثالثی کی کوششیں کی تھیں۔

اس اعلان سے قبل ہفتے کے روز ہزاروں فلسطینیون نے غزہ اور اسرائیل کی سرحدی پٹی پر احتجاجی سلسلوں کا ایک سال مکمل ہونے پر مظاہرہ کیا۔

اس کے نتیجے میں 4 افراد جاں بحق ہوئے تاہم مصر کی ثالثی ک سبب کشیدہ صورتحال میں کمی آگئی جس سے بڑے پیمانے پر خونزیری کا خطرہ ٹل گیا۔

دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو نے برازیلین صدر جائر بولسونارو کا 3 روزہ دورے پر استقبال کرتے ہوئے ایک بار پھر کہا کہ اگر ضرورت پڑی کو اسرائیل غزہ کی پٹی میں بڑے پیمانے پر آپریشن کے لیے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیں: غزہ: اسرائیلی فوج کی فائرنگ سے 2 فلسطینی جاں بحق، لاکھوں کا احتجاج

برازیلین صدر کو مخاطب کرتے ہوئے بینجمن نیتن یاہو نے کہا کہ ’آپ اسرائیل میں کشیدہ صورتحال کے درمیان آئیں ہیں اس لیے میں نے فوج کو غزہ کی سرحد کے ساتھ بھرپور تعیناتی کا حکم دیا ہے‘۔

اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’فوجی تعیناتیوں میں ٹینکس، گولہ بارود، زمینی افواج اور فضائیہ شامل ہے، ہم ہر صورتحال کے لیے تیار ہیں اور اگر ضرورت پڑی تو بڑی کارروائی کے لیے بھی۔

خیال رہے کہ فلسطین میں ایک سال ان فلسطینیوں کو اپنی سرزمین پر واپس جانے کی اجازت کے لیے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جنہیں 1948 کی عرب اسرائیل جنگ میں یہودی ریاست کے قیام کے لیے ان کے علاقوں سے بے دخل کردیا گیا تھا۔

مزید پڑھیں:

اس حوالے سے اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس طرح بڑے پیمانے پر واپسی سے یہودی ریاست کا خاتمہ ہوجائے گا اسلیے اسرائیل کو اپنی سرحد کے دفاع کے لیے اور حملوں کو روکنے کے لیے کارروائی کرنا ضروری ہے۔

واضح گزشت برس30 مارچ سے شروع ہونے والے احتجاج کے اس سلسلے کے دوران 2 سے کے لگ بھگ فلسطینی اسرائیلی فائرنگ سے جاں بحق ہوچکے ہیں جبکہ اسرائیل کی جانب سے حماس پر حملوں کی منصوبہ بندی کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔

خیال رہے کہ فروری میں اقوامِ متحدہ کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ اسرائیلی فوجیوں نے جان بوجھ کر فلسطینی شہریوں پر فائرنگ کی جو جنگی جرائم کا ارتکاب ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں