پرویز مشرف 2 مئی کو پیش نہ ہوئے تو دفاع کا حق ختم ہوجائیگا، سپریم کورٹ

اپ ڈیٹ 01 اپريل 2019
سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے والے پرویز مشرف دبئی میں مقیم ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی
سنگین غداری کیس کا سامنا کرنے والے پرویز مشرف دبئی میں مقیم ہیں—فائل فوٹو: اے ایف پی

سپریم کورٹ آف پاکستان نے سنگین غداری کیس میں حکم دیا ہے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف اگر 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے۔

ساتھ ہی عدالت عظمیٰ نے یہ بھی فیصلہ دیا کہ 2 مئی کو پرویز مشرف کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہوجائے گا اور ان کو دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی جلد سماعت سے متعلق درخواست سماعت کی۔

سماعت کے دوران خصوصی عدالت کا 28 مارچ کا حکم نامہ پیش کیا گیا، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا مشرف نے پیش ہونے کی یقین دہانی کروائی ہے؟

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویزمشرف 2 مئی کو طلب، تاریخ بدلنے کی درخواست واپس

اس پر سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ مشرف خود واپس آکر بیان ریکارڈ کروانا چاہتے ہیں، جس پر چیف جسٹس نے پوچھا کہ مشرف یقین دہانی کے باوجود واپس نہ آئے تو کیا ہوگا؟ وعدہ کرکے واپس نہ آنے پر کچھ تو ہونا ہی چاہیے۔

عدالتی استفسار پر سابق صدر کے وکیل نے کہا کہ ذاتی گارنٹی نہیں دے سکتا کہ پرویز مشرف واپس آئیں گے، بطور وکیل مجھے ہدایات ہیں کہ پرویز مشرف خود پیش ہوں گے۔

وکیل سلمان صفدر نے کہا کہ پرویز مشرف نے علاج کی غرض سے 13 مئی کو واپس آنے کی تاریخ دی، چیف جسٹس کی برطانوی آمر کی مثال شہ سرخیاں بن گئیں۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ میں مقدمہ غیر موثر ہوچکا ہے، ملزم کی عدم موجودگی میں ٹرائل غیر آئینی ہوتا ہے، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ملزم جان بوجھ کر پیش نہ ہو تو اس کو فائدہ نہیں اٹھانے دے سکتے، سنگین غداری کوئی معمولی جرم نہیں۔

سماعت کے دوران پرویز مشرف کے وکیل کے دلائل پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ پرویز مشرف کا ٹرائل عدم موجودگی میں نہیں ہورہا، ان پر فرد جرم ان کی موجودگی میں عائد ہوئی، سابق صدر طلب کرنے پر پیشی کی یقین دہانی کروا کر گئے تھے۔

اس دوران چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے ریمارکس دیے گئے کہ ملزم جان بوجھ کر غیر حاضر ہوجائے تو اس کے بعد کی کارروائی غیر حاضری کے زمرے میں تصور نہیں ہوگی، مفرور ملزم کے کوئی حقوق نہیں ہوتے۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی حکم امتناع کی درخواست مسترد

بعد ازاں عدالت کی جانب سے سنگین غداری کیس میں فیصلہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ پرویز مشرف 2 مئی کو پیش نہیں ہوتے تو خصوصی عدالت استغاثہ کو سن کر فیصلہ کرے، مشرف کے پیش نہ ہونے پر ان کا دفاع کا حق ختم ہوجائے گا۔

عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ پرویز مشرف کو سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت بھی نہیں ہوگی، تاہم اگر پرویز مشرف 2 مئی کو پیش ہوجاتے ہیں تو تمام سہولیات میسر ہوں گی۔

سپریم کورٹ نے فیصلے میں کہا گیا کہ اگر پرویز مشرف پیش نہیں ہوتے تو اس کا مطلب ہے کہ 342 کا بیان ریکارڈ کروانے کی سہولت سے فائدہ نہیں اٹھانا چاہتے۔

خیال رہے کہ 28 مارچ کو اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو 2 مئی کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے کہا تھا کہ عدالت نہ پہنچنے کی صورت میں بیان ریکارڈ کرنے سے متعلق مناسب حکم جاری کردیا جائے گا۔

غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: سپریم کورٹ نے پرویز مشرف کو 3 آپشن دے دیے

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ رواں سال کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون کو سپریم کورٹ نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں