رحم اور اشتعال

طیش اور طاقت کے مرکب کو بروقت عقل کی صراحی میسر نہ آئے تو ہر طرف تباہی مچا دیتا ہے۔ اپنے غیظ و غضب سے دوسروں کو فنا کر دینے والے!!! اگر اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب نہ ہوتی تو تُو خود کب کا فنا ہو چکا ہوتا پس اپنے رحم کو اپنے اشتعال پر حاوی رکھا کر کہ لوگ تیری طاقت سے ڈرتے ہیں لیکن تیرے رحم سے پیار کریں گے

ستاری

مزے لے لے کر اوروں کے عیب سرِ محفل اچھال کر داد و تحسین پانے والے!!!

ذرا اپنے کریہہ ماضی کو تو ٹٹول لے، اپنے مستقبل کے غلط ارادوں پر تو اک نگاہ ڈال لے، اپنے دل میں پلنے والی غلیظ خواہشات کا تو ایک لمحہ کے لیے تصور کر۔ پھر بھی اگر تو معزز ہوکر معاشرے میں چلتا پھرتا ہے تو یہ ستاری کی اس چادر کا صدقہ ہے جو قدرت نے تجھ پر ڈال رکھی ہے ورنہ شاید لوگ تجھ پر تھوکنا بھی گوارا نہ کرتے۔

پس اپنے جیسوں کے عیب چھپایا کر کہ قدرت کی ڈالی ہوئی چادروں میں چھید کرنا ہمیشہ مہنگا پڑتا ہے۔

برائی کی ایک قسم

حد سے بڑھی ہوئی اچھائی بھی برائی کی ایک قسم ہے لیکن خود کو اچھا سمجھنے والے کہاں سمجھتے ہیں

عمل کے 3 حصے

ہر عمل کے 3 حصے ہوتے ہیں: نیت، طریقہ کار اور نتیجہ۔

نیت پر انسان کا مکمل اختیار ہے، طریقہ کار پر جزوی اختیار اور نتیجے پر انسان کو کوئی اختیار نہیں ہوتا۔

اچھے نتائج کے لیے نیت نیک اور طریقہ کار درست ہونا چاہیے۔ بہترین طریقہ کار اختیار کرنا چاہتے ہیں تو مکمل توجہ صرف مطلوبہ نتیجے کے حصول پر رکھیں اور اس بات سے کلی طور بے نیاز ہوجائیں کہ لوگ آپ کی نیت پر کیا قیاس کرتے ہیں۔

نیک نیت اپنی نیک نیتی ثابت کرنا یا بدنیت اپنی بدنیتی چھپانا اپنے مقصد میں شامل کرلے تو طریقہ کار بہتر تو شاید ہوجائے لیکن بہترین کبھی نہیں ہو سکتا۔

اپنی نیت کو خود تک محدود رکھیں، نظر صرف نتیجے پر رکھیں، بہترین طریقہ کار اختیار کریں اور نتائج قدرت پر چھوڑ دیں۔ آپ ہمیشہ پُرسکون رہیں گے۔

اینٹ اور پتھر

سب نہیں لیکن کچھ لوگوں کو اینٹ کا جواب پتھر سے نہ دیں تو اگلی بار وہ اینٹ کی بجائے پتھر سے حملہ کرتے ہیں۔

ناجائز فائدہ

جو تمہاری اچھائی کی قدر کرے اس کے ساتھ مزید اچھائی کرو۔

جو تمہاری اچھائی کے جواب میں بُرائی کرے اس کے ساتھ بھی اچھائی کرتے رہو۔

لیکن جو تمہاری اچھائی کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگے، تمہاری اچھائی کو تمہاری بیوقوفی، کمزوری، سادگی یا کم عقلی سمجھے، اسے نہ صرف اپنی اچھائی کا ناجائز فائدہ اٹھانے سے روکو بلکہ اسے اچھی طرح بتا دو کہ تم بیوقوف، کمزور، سادہ یا کم عقل نہیں ہو۔

اور اگر تم ایسا نہیں کرسکتے

تو پھر تم واقعی بیوقوف، کمزور، سادہ یا کم عقل ہو۔

اچھائی تو ازل سے کم اور بُرائی ہمیشہ ہی زیادہ رہی ہے، لہٰذا تمہاری کمیاب اچھائی کے کہیں بہتر حقدار مل سکتے ہیں۔

پس خود کو اپنی اچھائیوں سمیت کم ظرفوں کے ہاتھوں ضائع مت کرو۔

پہچان

تمہارا نام، تمہاری صورت، تمہاری برادری، تمہارا مال، تمہارا مرتبہ، تمہارا علم یا تمہاری صلاحیتیں تمہاری پہچان ہرگز نہیں ہیں، تمہاری اصل پہچان تو تمہارا قول اور تمہارا فعل ہے۔

قول و فعل کُلّی طور پر تمہارے شعور و تحت الشعور کے تابع ہوتے ہیں۔ پس انسان کچھ نہیں سوائے اس کے کہ اس کے شعور و تحت الشعور میں کیا پڑا ہے۔

کرنسی

وقت دنیا کی طاقتور ترین کرنسی ہے، جس کا ایکسچینج ریٹ کرنسی ہولڈر کے اپنے اختیار میں ہے۔

چاہے تو ایک لمحہ لاکھوں کا ہوجائے چاہے تو وہی لمحہ مٹی میں مل جائے

برکت

آج ہر کوئی وقت کی قلت اور مہنگائی کی علت سے پریشان ہے۔

اپنے وقت کو ہمیشہ درست کام میں استعمال کریں اور مال کو صرف ضروری جگہ پر خرچ کریں، کیونکہ یہی وقت اور مال کی برکت ہے۔

لمحہ

وہ لمحہ جس میں تُو نے اپنی یا کسی کی منفعت کا سامان نہ کیا وہ لمحہ تُو نے ہمیشہ کے لیے ضائع کردیا ہمیشہ کے لیے۔

حق، فرض اور احسان

کسی کا حق ادا کرنا فرض ہے اور کسی کے حق سے زیادہ کرنا احسان ہے بد فطرت کسی پر احسان کرکے اس کے حقوق دبانا اپنا فرض سمجھ لیتا ہے

اور

کم ظرف کسی کے احسان کو اپنا حق سمجھنے لگتا ہے ایسے بدفطرت اور کم ظرفوں سے بچ کر رہیں اپنے محسن کے مشکور رہیں اور اپنے ممنون کو اپنی اطاعت سے آزاد کردیں۔

جاہل اور عاقل

اپنے بارے میں جاہلوں کی رائے پر توجہ کرنا بذاتِ خود جہالت ہے اور اپنے بارے میں عاقلوں کی رائے سے صرفِ نظر کرنا کوئی عقلمندی نہیں۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ انسان جاہل اور عقلمند میں تفریق بھی اپنی جہالت اور عقلمندی کی بنیاد پر کرتا ہے۔

ہر جگہ جاہل اور عقلمند ایک دوسرے پر تلواریں سونتے کھڑے ہیں۔ جاہل عقلمند کو سرِعام جاہل کہہ رہا ہے اور عقلمند اچھا خاصہ عقلمند ہونے کے باوجود جاہل کو جاہل کے سامنے ہی جاہل ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کررہا ہے۔ یہیں سے معاشرے میں انتشار اور لامحدود اختلافات جنم لیتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہر کوئی بیک وقت کسی حد تک جاہل اور کسی حد تک عاقل بھی ہے، جس کا جہل اس کی عقل پر غالب ہو اسے عرف عام میں جاہل کہہ دیتے ہیں اور جس کی عقل اس کے جہل پر غالب ہو اسے عقلمند کہہ دیا جاتا ہے۔

خود کو عقلِ کُل کا مالک نہ سمجھیں اور جاہل کو ابو جہل نہ سمجھیں بلکہ جاہل کی بات بھی ہمیشہ توجہ سے سنیں کہ وہ کبھی عقل کی بات بھی کرسکتا ہے اور اگر کبھی عاقل سے جہالت کا مظاہرہ ہوجائے تو اسے انہونی مت سمجھیے۔

یوں سارے مسئلے ضرور حل ہوجائیں گے۔

آئینہ

اگر حقیقت دیکھ کر خود کو سنوارنے کے بجائے تم نے آئینہ ہی توڑ ڈالا تو تمہاری بدصورتی بکھری ہوئی درجنوں کرچیوں میں منعکس ہونے لگے گی، پھر نہ کہنا کہ بدنام ہو گئے

مفہوم:

جب کوئی خیرخواہ تمہاری غلطی کی نشاندہی کرے تو اپنی اصلاح کی بجائے اسے خود سے دُور کردو گے تو جابجا غلطیاں کرکے زمانے بھر میں رسوا ہوجاؤ گے۔

پس جو تمہیں غلط کہے اسے غلط نہ سمجھو، اگر وہ درست کہہ رہا ہے تو تمہارے لیے اصلاح کا قیمتی موقع ہے اور اگر وہ غلط کہہ رہا ہے تب بھی تمہاری شخصیت کو مضبوط کر رہا ہے۔ دونوں صورتوں میں وہ تمہیں نفع ہی پہنچا رہا ہے۔

البتہ جو تمہیں درست کہتا ہے اس کو احتیاط سے سنو کہ تعریف و حمایت کے باعث خود فریبی اور غلطی پر جاہلانہ استقامت کا وہ ناگ ڈس لیتا ہے جس کا کاٹا پانی بھی نہیں مانگتا۔

پانا اور کھونا

جب تمہیں اپنی جہالت کا احساس ہونے لگے تو سمجھ لو کہ تم علم پانے لگے ہو، اور جب تمہیں اپنے سوا سب جاہل دکھائی دینے لگیں تو سمجھ لو کہ اب تم علم کھونے لگے ہو۔

عجز

شاہین کی ایک خاصیت یہ بھی ہے کہ وہ بلندی پرواز کے ساتھ ساتھ نیچے گہری پستیوں میں جھانکنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتا ہے۔ حیرت ہے ان انسانوں پر جو بلندیوں تک تو پہنچ جاتے ہیں لیکن نیچے اس جگہ نہیں دیکھ پاتے جہاں ایک دن ان کی لاش نے گرنا ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں