اسرائیل میں قبل از وقت عام انتخابات کیلئے ووٹنگ جاری

اپ ڈیٹ 09 اپريل 2019
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں— فوٹو: رائٹرز
اسرائیل کے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اور ان کی اہلیہ سارہ اپنا ووٹ ڈال رہی ہیں— فوٹو: رائٹرز

اسرائیل میں قبل از وقت عام انتخابات کے دوران پولنگ کے عمل کا آغاز ہو گیا ہے جہاں موجودہ وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کو ریکارڈ پانچویں مرتبہ منتخب ہونے کے لیے سابق فوجی جنرل کے مقابلے کا سامنا ہے۔

منگل کو انتخابات کے دن صبح 7 بجے پولنگ اسٹیشنز کھول دیے گئے تھے اور انہیں ووٹنگ کے لیے رات 10بجے بند کردیا جائے گا تاہم ہو سکتا ہے کہ نتیجے کا فوری طور پر فیصلہ نہ کیا جا سکے۔

اسرائیل میں آج تک کوئی بھی جماعت بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل نہیں کر سکی اور 120 سیٹوں کی پارلیمنٹ میں حکومت کے قیام کے لیے بعض اوقات کئی ہفتے لگ جاتے ہیں۔

انتخابات میں 41 سیاسی جماعتیں حصہ لے رہی ہیں جبکہ 58 لاکھ ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے۔سال 2015 کے انتخابات میں 71.8 فیصد ٹرن آؤٹ رہا تھا، اس بار بھی بہتر ٹرن آؤٹ کی توقع کی جارہی ہے۔

واضح رہے کہ اسرائیل میں عام انتخابات 5 نومبر 2019 کو منعقد ہونا تھے تاہم اسرائیلی وزیراعظم پر بدعنوانی کے الزامات اور راسخ العقیدہ یہودیوں سے متعلق قومی خدمات کے بل پر حکومتی اراکین میں اختلافات کے باعث الیکشن قبل از وقت کرانے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔

اسرائیلی وزیر اعظم نے اپنی انتخابی مہم کے دوران فلسطینیوں کے خلاف سخت موقف اپنایا اور اپنی خارجہ پالیسی کو عوام کے سامنے پیش کیا جہاں ان کی حکومت کے ٹرمپ انتظامیہ سے انتہائی اچھے تعلقات رہے ہیں۔

اسرائیل کے بانی رہنما ڈیوڈ بین گیورین کی جانب سے قائم کی گئی 69سال پرانی لیکود پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو اگر اس مرتبہ بھی عہدہ برقرار رکھنے میں کامیاب ہوتے ہیں تو وہ ناصرف پانچویں مرتبہ اس منصب کو سنبھالیں گے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ جولائی میں سب سے زیادہ عرصے تک وزیر اعظم رہنے والے شخص بھی بن جائیں گے۔

تاہم ان پر لگنے والے کرپشن کے مختلف الزامات ان کے دوبارہ منتخب ہونے کی راہ میں حائل ہو سکتے ہیں حالانکہ نیتن یاہو ان الزامات کی تردید کرتے رہے ہیں۔

نیتن یاہو پر الزامات ہیں کہ انہوں نے ٹیلی کام کے معاہدے میں کرپشن کر کے ایک فریق کو کروڑوں ڈالر کا فائدہ پہنچایا، ان پر غیرملکیوں سے 3لاکھ ڈالر سے زائد کے مہنگے تحفے لینے، میڈیا پر اثر انداز ہونے اور اسے اپنے لحاظ سے استعمال کرنے اور جرمنی سے 2ارب ڈالر کی بحری آبدوز کی خریداری میں مفادات کے ٹکراؤ کا الزام ہے۔

انتخابات سے قبل کرائی گئی رائے عامہ میں نیتن یاہو کو انتخابات میں اپنے حریف اور سابق فوجی جنرل بینی گینٹز پر سبقت حاصل ہے۔

آج الیکشن کے دن روایتی اور براڈ کاسٹ میڈیا کو انتخابی مہم سے روک دیا گیا ہے تاہم نیتن یاہو نے ٹوئٹر اور فیس بک پر ایک لنک شیئر کیا ہے اور ووٹرز سے کہا ہے کہ وہ ان سے رابطے میں رہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج صبح مجھ سے کہا گیا ہے کہ میں آپ سے میسنجر کے ذریعے بات کروں، اس کے لیے آپ کو محض ایک لنک پر کلک کرنے کی ضرورت ہے، میں آپ کا منتظر ہوں۔

تاہم ان کے مخالف امیدوار نے مختلف حربہ اپناتے ہوئے کہا کہ اپنی ووٹنگ اسٹیشن کی ایک ویڈیو شیئر کی جس میں کوئی ہدایات نہیں دی گئیں جبکہ ان کی پارٹی کے ایک اور رہنما یائر لاپد نے اپنی کک باکسنگ کرتے ہوئے ایک ویڈیو شیئر کی ہے اور کہا کہ وہ کک ہر ووٹ کے لیے لڑیں گے۔

انتخابات کے بعد اسرائیل کے صدر ریوون ریولن اسرائیلی پارلیمنٹ ’کنیسیٹ‘ میں تمام جماعتوں کے رہنماؤں سے مشاورت کریں گے اور اس شخص کو منتخب کریں گے جسے وہ سمجھیں گے کہ اس کے پاس حکومت بنانے کا سب سے اچھا موقع ہے۔

الیکشن کے حوالے سے بھی لوگ مشکل آرا رکھتے ہیں جہاں کچھ لوگ نیتن یاہو کو دوبارہ وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں جبکہ ایک بڑا طبقہ تبدیلی کا خواہشمند جو یہ یہ سمجھتا ہے کہ اب نیا وزیر اعظم آنا چاہیے۔

دونوں امیدوار انتخابی مہم میں ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات عائد کرتے رہے جہاں نیتن یاہو کا کہنا تھا کہ میڈیا کا ان سے رویہ جانبدارانہ رہا جبکہ ان کے حریف نے کو مذہبی و نسلی طور پر تقسیم معاشرے کے لیے مرہم کا کام کرنے کا نعرہ بلند کیا ہے۔

دوسری جانب فلسطین کے صدر محمود عباس کے مشیر نبیل شاتھ نے ان انتخابات کو ایک دھوکا قرار دیتے ہوئے کہا کہ اسرائیل کی اہم جماعتوں میں اب وہ زیادہ فرق نہیں رہا جو پہلے ہوتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب انتخابات اہم تھے لیکن اب آپ کیا کر رہے ہیں؟ یہاں دائیں بازوں کی جماعت ہے، پھر انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت اور پھر شدید انتہا پسند دائیں بازو کی جماعت ہے۔ اسرائیل میں اب کوئی بائیں بازو کی جماعت نہیں رہی۔

تبصرے (0) بند ہیں