صوبہ بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے نواحی علاقے ہزار گنجی میں قائم سبزی منڈی میں دھماکے سے 20 افراد جاں بحق اور 48 افراد زخمی ہوگئے۔

بلوچستان کے وزیرداخلہ ضیا اللہ لانگو نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکے میں کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ نہیں بنایا گیا تاہم جاں بحق افراد میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد زیادہ ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق صوبائی وزیر نے تصدیق کی کہ دھماکا خود کش تھا۔

رپورٹ کے مطابق بعد ازاں اس حملے کی ذمہ داری کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے ایک دھڑے نے قبول کرلی جس کا کہنا تھا کہ اس نے یہ حملہ لشکر جھنگوی کے ساتھ مل کر کیا تاہم کسی خط کے ذریعے اس کی تصدیق نہ ہوسکی۔

قبل ازیں ڈپٹی جائے وقوع پر موجود انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) بلوچستان عبدالرزاق چیمہ نے بتایا تھا کہ دھماکے میں ہزارہ برادری کو نشانہ بنایا گیا تھا۔

دھماکے کے وقت سبزی منڈی میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے—تصویر:رائٹرز
دھماکے کے وقت سبزی منڈی میں بڑی تعداد میں لوگ موجود تھے—تصویر:رائٹرز

ڈی آئی جی کے مطابق ہزارہ کمیونٹی کے افراد روزانہ یہاں سبزی لینے کے لیے قافلے کی شکل میں آتے ہیں جن کو سیکیورٹی فراہم کرنے کے لیے پولیس اور ایف سی اہلکار بھی ہمراہ ہوتے ہیں۔

آج بھی وہ 11 گاڑیوں کے قافلے میں آئے جس میں 55 افراد سوار تھے اور معمول کے مطابق پولیس اور ایف سی اہلکاروں نے انہیں منڈی میں پہنچا کر سبزی منڈی کے مرکزی دروازے اور اطراف میں پوزیشنز سنبھال لی تھیں۔

ڈی آئی جی نے کہا تھا کہ دھماکا خیز مواد آلو کی بوریوں میں چھپایا گیا تھا اور آلو کی دکان سے سامان گاڑیوں میں لوڈ کرتے ہوئے دھماکا ہوا۔

مزید پڑھیں: کوئٹہ میں دھماکا 87 افراد جاں بحق

ان کا کہنا تھا کہ دھماکے کی نوعیت کے حوالے سے تفتیش جاری ہے اور حتمی تحقیقات کے بعد ہی کہا جاسکتا ہے کہ دھماکا ریموٹ کنٹرول تھا یا ٹائم ڈیوائس کے ذریعے کیا گیا۔

ڈی آئی جی نے بتایا کہ منڈی کے دروازے پر دھماکا خیز مواد چھپا کر پہلے بھی دھماکا کیا گیا تھا جس میں پولیس اہلکار زخمی ہوئے تھے۔

دھماکا اتنا زوردار تھا کہ دور دور تک اس کی آواز سنی گئی—تصویر:اے ایف پی
دھماکا اتنا زوردار تھا کہ دور دور تک اس کی آواز سنی گئی—تصویر:اے ایف پی

اس واقعے کے بعد بھی پولیس نے حفاظتی اقدامات کے سلسلے میں نگرانی اور صفائی ستھرائی کے انتظامات بہتر بنانے ہدایت کی تھی تا کہ دکانوں کے اندر اور بوریوں میں کوئی چیز چھپائی نہ جاسکے۔

رپورٹس کے مطابق دھماکا صبح سویرے ہوا اور اُس وقت منڈی میں کافی تعداد میں لوگ موجود تھے، دھماکا اتنا شدید تھا کہ اس کی آواز دور دور تک سنی گئی۔

دھماکے کے بعد پولیس، سیکیورٹی اور ریسکیو اہلکار جائے وقوع پر پہنچ گئے اور علاقے کو خالی کروا کر لوگوں کی آمدو رفت پر پابندی لگادی جبکہ لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں 2 دھماکے، سیکیورٹی اہلکاروں سمیت 12 افراد زخمی

حکام کے مطابق زخمیوں کو جائے وقوع سے قریب بولان میڈیکل کملیکس منتقل کیا گیا جہاں انہیں طبی امداد دینے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ صوبائی حکومت نے ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کردی ہے۔

خیال رہے کہ کوئٹہ کا علاقہ ہزار گنجی اس سے قبل بھی متعدد مرتبہ دھماکوں کی زد میں رہ چکا ہے۔

دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں

صدر ملکت ڈاکٹر عارف علوی نے کوئٹہ دھماکے میں قیمتی جانوں ضیاع پر گہرے رنج و غم کا اظہار کیا ہے۔

اپنے پیغام میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ دہشت گردی کا گھناؤنا فعل ہے جو ہمارے لیے بحیثیت قوم اس بات کی یاددہانی ہے کہ اس لعنت کے مکمل طور پر ختم ہونے کے لیے چند باقیات اب بھی باقی ہیں۔

وزیراعظم عمران خان نے بھی کوئٹہ دھماکے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے انکوائری رپورٹ طلب کرلی اس کے ساتھ زخمیوں کو بہترین طبی سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

گورنر بلوچستان امان اللہ خان یٰسین زئی، وزیراعلیٰ جام کمال خان اور وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی جانب سے بھی دھماکے کی سختی سے مذمت کی گئی۔

وزیراعلٰی بلوچستان جام کمال خان نے ہزار گنجی میں دہشت گردی کے واقعے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے بزدلانہ کارروائی قرار دیا اور قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر دلی دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ واقعے کے شہداء کے غم میں برابر کے شریک ہیں، شدت پسند سوچ کے حامل افراد معاشرے کا ناسور ہیں اور ان کا تدارک ناگزیر ہے۔

مزید پڑھیں: بلوچستان: ڈیرہ مراد جمالی میں بم دھماکا، ایک شخص جاں بحق

ان کا مزید کہا کہ پرامن ماحول کو خراب کرنے کی سازش کو ناکام بنانا ہوگا، انسانیت کے دشمن دہشت گرد کسی رعایت کے مستحق نہیں۔

اس کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان نے واقعے میں ملوث عناصر اور ان کے سرپرستوں کے خلاف پوری قوت سے کارروائی کر کے انہیں کیفر کردار تک پہنچانے اور زخمیوں کو علاج کی بہترین سہولیات فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

دوسری جانب قومی اسمبلی کے اسپیکر و ڈپٹی اسپیکر، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، مسلم لیگ (ن) کی رہنما مریم نواز اور دیگر سیاستدانوں نے بھی کوئٹہ دھماکے کی مذمت کرتے ہوئے جاں بحق افراد کے لواحقین سے تعزیت جبکہ زخمیوں کی جلد صحتیابی کی دعا کی۔

ایک ماہ میں 4 دھماکے

بلوچستان میں گزشتہ ماہ بھی 3 دھماکے ہوئے تھے جس میں 4 دہشت گردوں سمیت کم از کم 8 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

26 مارچ کو بلوچستان کے ضلع لورالائی میں سیکیورٹی فورسز کی کارروائی کے دوران لیویز اہلکاروں پر حملے کے ماسٹرمائنڈ سمیت 4 مبینہ دہشتگردوں نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا تھا۔

اس سے قبل 17 مارچ کو ڈیرہ مراد جمالی میں ریل کی پٹڑی پر ہونے والے دھماکے کے نتیجے میں جعفرآباد ایکسپریس کی بوگیاں ٹریک سے اترگئی تھیں جس کے نتیجے میں ماں بیٹی سمیت 4 افراد جاں بحق اور 6 زخمی ہو گئے تھے۔

11 مارچ کو کوئٹہ کے علاقے میاں غنڈی میں پولیس کے محکمے انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی ) کی موبائل کے قریب دھماکے کے نتیجے میں 4 اہلکار زخمی ہوگئے تھے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں