افغانستان: طالبان اور داعش کے درمیان 'قبضے کی جنگ' کا پھر آغاز

اپ ڈیٹ 25 اپريل 2019
رپورٹ کے مطابق داعش نے طالبان کے زیر انتظام دیہاتوں پر حملہ کیا — فوٹو: رائٹرز
رپورٹ کے مطابق داعش نے طالبان کے زیر انتظام دیہاتوں پر حملہ کیا — فوٹو: رائٹرز

کابل: افغانستان کے مشرقی حصوں میں زمینی قبضے کے لیے طالبان اور داعش کے حمایت یافتہ جنگجوؤں میں ایک مرتبہ پھر شدید لڑائی کا آغاز ہوگیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کی رپورٹ میں افغان حکوم کے حوالے سے بتایا گیا کہ ملک کے مشرقی صوبے ننگر ہار کے 2 اضلاع میں 2 روز قبل شدید لڑائی کا آغاز اس وقت ہوا جب داعش نے طالبان کے زیر انتظام دیہاتوں پر حملہ کیا۔

ننگر ہار کی صوبائی کونسل کے رکن سہراب قادری نے بتایا کہ 'داعش کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے خوگیانی کے 6 دیہاتوں اور ضلع شیر زاد پر قبضہ کرلیا لیکن شدید لڑائی جاری ہے'۔

مزید پڑھیں: افغانستان: طالبان اور داعش کے حملوں میں 29 افراد ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ متاثرہ علاقے سے تقریبا 500 خاندان نقل مکانی کر چکے ہیں جبکہ جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی تفصیلات حاصل نہیں ہوسکیں۔

دوسری جانب طالبان کے ترجمان، جن کے پاس ملک کے بیشتر علاقوں کے انتظامات ہیں، فوری طور پر اس معاملے پر رد عمل کے لیے دستیاب نہ ہوسکے۔

یاد رہے کہ 2014 میں افغانستان کے مشرقی علاقوں میں پہلی مرتبہ داعش کے حمایت یافتہ جنگجوؤں نے اپنی موجودگی کا احساس دلاتے ہوئے نہ صرف طالبان بلکہ غیر ملکی اور مقامی افواج کی حدود کو چیلنج کیا تھا۔

افغانستان میں موجود داعش کے حمایت یافتہ جنگجو، جو خود کو داعش خراسان کہلواتے ہیں، یہ افغانستان کا قدیم نام ہے، ان کی جانب سے ملک کے دیگر علاقوں میں بھی مداخلت کی رپورٹس آتی رہی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستانی طالبان نے داعش کی حمایت کا اعلان کر دیا

علاوہ ازیں داعش خراسان سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں نے ملک میں ہونے والے ایسے دھماکوں اور حملوں کی ذمہ داری بھی قبول کی ہے جس میں جانی اور مالی نقصان سامنے آیا۔

یاد رہے کہ ننگر ہار کا علاقہ پاکستان کی سرحد سے منسلک ہے اور یہاں داعش خراسان کا کنٹرول ہے جبکہ خوگیانی اور شیرزاد کے اضلاع کے چند دیہات طالبان کے پاس ہیں۔

متاثرہ علاقے سے نقل مکانی کرنے والے دیہاتیوں کا کہنا تھا کہ وہ اپنی جان بچا کر علاقے سے نکلے ہیں۔

نقل مکانی کرنے والے سخاوت نامی افغان شہری نے بتایا کہ 'میں صرف اپنے خاندان کو محفوظ بنا سکتا تھا، ہمیں سب کچھ چھوڑ کر نکلنا پڑا'۔

صوبائی گورنر کے ترجمان عطال اللہ خوگیانی کا کہنا تھا کہ انتظامیہ نقل مکانی کرنے والے افراد کی خوراک اور ادویات کا انتطام کررہی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا نے طالبان،داعش جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی تعداد سامنے لانے سے روک دیا

گزشتہ سال اگست میں ملک کے شمال مغربی صوبے جاوزان میں طالبان کے ہاتھوں شکست کے بعد داعش کے 150 سے زائد جنگجوؤں نے افغان حکومت کے سامنے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔

امریکی افواج نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ افغانستان میں داعش کے حمایت یافتہ جنگجوؤں کی تعداد 2 ہزار کے قریب ہے، جن میں سے بیشتر طالبان کے سابق اراکین ہیں۔

داعش کی ابتدا مشرق وسطیٰ کے علاقے عراق سے ہوئی تھی بعد ازاں یہ تنظیم شام میں بھی قدم جمانے میں کامیاب ہوگئی تھی لیکن مغرب کی اتحادی افواج نے انہیں شکست سے دوچار کرکے دونوں علاقوں سے بے دخل کردیا۔


یہ رپورٹ 25 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں