واشنگٹن: امریکا نے طالبان اور عسکریت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کی ہلاکتوں کی تعداد سامنے لانے سے روک دیا۔

امریکا کی جانب سے پالیسی میں تبدیلی کا یہ فیصلہ طالبان کو امن عمل میں شامل ہونے پر مجبور کرنے کی نشاندہی کرتا ہے۔

اس حوالے سے واشنگٹن میں موجود سفارتی ذرائع نے بتایا کہ افغانستان میں دشمنوں کی ہلاکتوں کو سامنے نہ لانے کا فیصلہ امریکا اور طالبان حکام کے درمیان براہ راست مذاکرات کو فروغ دینے کی کوشش ہے۔

مزید پڑھیں: ’امریکی حکام اور طالبان کے درمیان براہِ راست پہلی ملاقات‘

خیال رہے کہ رواں سال جولائی میں امریکی سفارتکاروں اور طالبان حکام کے درمیان قطر میں پہلہ مرتبہ براہ راست بات چیت ہوئی تھی، امریکی اخبار نیو یارک ٹائمز نے اس ملاقات کو ’طویل ترین امریکی پالیسی میں تبدیلی‘ قرار دیا تھا۔

اسی طرح گزشتہ ہفتے طالبان کے ایک وفد نے دبئی میں بظاہر امریکی توثیق سے ریڈ کراس حکام سے ملاقات کی تھی، جس میں امریکی اور افغان حراست میں موجود قیدیوں کی محفوظ رہائی پر بات چیت ہوئی تھی کیونکہ یہ اقدام افغان امن عمل میں شمولیت کے لیے طالبان کے مطالبات میں سے ایک تھا۔

سفارتی ذرائع نے مزید بتایا کہ طالبان کا دبئی میں امریکی حکام سے مزید مذاکرات کا امکان بھی ہے۔

ذرائع کا کہنا تھا کہ رواں ماہ کے اختتام میں روس، افغان حکومت اور طالبان نمائندوں کے درمیان اسی طرح کے مذاکرات کی میزبانی کر رہا ہے اور روس کے اس عمل نے واشنگٹن کو اپنے امن عمل میں تیزی لانے پر مجبور کردیا ہے۔

واضح رہے کہ ٹرمپ انتظامیہ کی نئی افغان حکمت عملی میں دشمنوں کی ہلاکتوں کی نشاندہی کرنا شامل تھا اور رواں سال 2 ہزار 5 سو سے زائد جنگجوؤں کے ہلاک یا زخمی ہونے کا اعلان کیا گیا تھا جبکہ فیس بک اور ٹوئٹر کے ذریعے یہ اعداد و شمار آن لائن بھی پوسٹ کیے گئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکا افغان طالبان سے براہ راست مذاکرات کیلئے تیار

تاہم رواں ہفتے مختلف ذرائع ابلاغ نے اس بات کو محسوس کیا کہ اس طرح کی پریس ریلیز آنا رک گئی ہیں اور جب اس بارے میں نیویارک ٹائمز نے امریکی محکمہ دفاع سے رابطہ کیا تو بذریعہ خط انہوں نے اس بات کی تصدیق کی کہ موت کے اعداد و شمار سامنے لانے کے عمل کو روک دیا گیا ہے۔

افغانستان میں امریکی مشن کے ترجمان کرنل ڈیوڈ ایم بٹلر کا کہنا تھا کہ ’جب تک غیر ضروری حالات میں معلومات فراہم کرنے کی ضروت نہیں ہوتی، کمانڈ کو اس طرح کی معلومات فراہم کرنے سے روک دیا گیا ہے۔'


یہ خبر 25 ستمبر 2018 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں