طالبان کے ساتھ امریکی کوششوں پر مباحثے کیلئے افغان لویہ جرگہ منعقد کرنے کا فیصلہ

27 اپريل 2019
یہ جرگہ نو منتخب پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کے 3 روز بعد منعقد کیا جارہا—فوٹو: رائٹرز
یہ جرگہ نو منتخب پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کے 3 روز بعد منعقد کیا جارہا—فوٹو: رائٹرز

کابل: افغانستان میں جاری جنگ اور طالبان کے ساتھ امن معاہدے کے لیے امریکی کوششوں پر مباحثے کے لیے ایک غیر معمولی ’لویہ جرگہ‘ منعقد کیا جائے گا، جس میں ملک بھر سے وفود شریک ہوں گے۔

کابل میں ایک بڑے خیمے میں ہونے والے اس 4 روزہ مباحثے کے لیے سخت سیکیورٹی انتظامات کیے گئے ہیں جبکہ 2 ہزار سے زائد افراد کو اس میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

یہ جرگہ نو منتخب پارلیمنٹ کے افتتاحی سیشن کے 3 روز بعد منعقد کیا جارہا ہے، لویہ جرگہ پشتو میں ’گرینڈ اسمبلی‘ کو کہتے ہیں، جو روایتی طور پر افغان عمائدین پر مشتمل ہوتا ہے۔

مزید پڑھیں: 'شہریوں کی ہلاکتیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغان جنگ بہت طویل ہوچکی'

اس حوالے سے سب سے حالیہ جرگہ 2013 میں منعقد ہوا تھا، جب افغان حکام نے ایک سیکیورٹی معاہدے کی توثیق کی تھی، جس کے تحت 2014 میں انخلا کے منصوبے سے آگے جاتے ہوئے امریکی فوجیوں کو افغانستان میں رکنے کی اجازت دی گئی تھی۔

واضح رہے کہ افغانستان کی جانب سے پاکستان پر طالبان اور القاعدہ کے جنگجوؤں کو پناہ دینے کے الزام کے باعث دونوں پڑوسیوں میں بگڑتے تعلقات کے بعد اگست 2007 میں پہلا افغان-پاکستان مشترکہ جرگہ کابل میں منعقد ہوا تھا۔

اس سے قبل 2003 میں سابق افغان صادر صبغت اللہ مجددی کی سربراہی میں ہونے والے لویہ جرگہ میں طالبان کے دور کے بعد افغانستان کے نئے آئین کی منظوری دی گئی تھی۔

عام طور پر یہ ایونٹس سیاسی شخصیات، مذہبی اسکالرز، اساتذہ، کارکنان اور کمیونٹی لیڈرز پر مشتمل ہوتے ہیں، اس میں نمائندے چھوٹے گروپس کی صورت میں مختلف امور کو دیکھتے ہیں۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ آنے والا لویہ جرگہ ایک ایسے وقت میں منعقد کیا جارہا ہے جب امریکا اور طالبان کے درمیان مذاکرات کے کئی دور ہوچکے ہیں۔

دونوں فریقین کی جانب سے افغانستان سے فوجیوں کی ممکنہ واپسی پر تبادلہ خیال ہوا ہے جبکہ اس کے بدلے طالبان کی جانب سے مختلف وعدوں اور جنگ بندی پر بھی بات چیت کی گئی ہے۔

تاہم اہم بات یہ ہے کہ اس سارے مذاکراتی عمل میں اب تک افغان صدر اشرف غنی کی حکومت باہر رہی ہے کیونکہ طالبان کی نظر میں وہ امریکی کٹھ پتلی ہیں۔

اشرف غنی کی حکومت امن مذاکرات میں اثرڈالنے کیلئے کوششوں میں مصروف ہے اور اس جرگے کا مقصد کسی معاہدے کے لیے کابل کی سرخ لائن کا تعین کرنا ہے، جس میں آئین کا تسلسل اور خواتین کے حقوق، میڈیا اور اظہار رائے کا تحفظ بھی شامل ہے۔ افغان صدر کی جانب سے طالبان کو شرکت کی دعوت دی گئی لیکن جنگجوؤں نے اس سے انکار کردیا۔

ماضی میں طالبان کی جانب سے لویہ جرگہ خیمے پر راکٹ فائر کیے گئے تھے جس کو دیکھتے ہوئے رواں سال کے ایونٹ کے لیے سخت سیکیورٹی آپریشن کے تحت کابل کو بند کردیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: ’افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں زیادہ شہری جاں بحق ہوئے‘

دوسری جانب ایک بیان میں طالبان نے اس عزم کا اظہار کیا کہ لویہ جرگہ میں کوئی فیصلہ یا قرارداد’اس سرزمین کے وفادار اور اصلی بیٹوں کے لیے کبھی قبول نہیں ہوگی‘۔

اس جرگے میں اشرف غنی سمیت سابق صدر حامد کرزئی، سابق وزیر خارجہ زلمے رسول، سابق وار جنگجو سردار عبدالرب رسول سیف اور دیگر افغان حکام شریک ہوں گے۔

تاہم چیف ایگزیٹو عبداللہ عبداللہ، سابق جنگجو سردار گلبدین حکمت یار اور اشرف غنی کے سابق مشیر قومی سلامتی محمد حفیظ اتمر نے اس ایونٹ کا بائیکاٹ کیا ہے اور کہا ہے کہ اسے بغیر مشاورت کے کیا جارہا۔


یہ خبر 27 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں