'شہریوں کی ہلاکتیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغان جنگ بہت طویل ہوچکی'

اپ ڈیٹ 26 اپريل 2019
امریکا کے نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم ان افغانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اموات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز
امریکا کے نمائندہ خصوصی کا کہنا تھا کہ ہم ان افغانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اموات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں — فائل فوٹو: رائٹرز

واشنگٹن: امریکا کے نمائندہ خصوصی زلمے خلیل زاد نے کہا ہے کہ افغانستان میں شہریوں کی ہلاکتوں میں اضافہ اس جانب اشارہ کرتا ہے کہ یہ جنگ ’بہت طویل ہوگئی‘ ہے۔

واضح رہے کہ افغانستان میں اقوام متحدہ کے امدادی مشن کی جانب سے رپورٹ کیا گیا تھا کہ 2019 کی پہلی سہہ ماہی میں ملک میں ایک ہزار 7 سو 73 شہریوں کو نقصان پہنچا، جس میں 581 افراد ہلاک اور ایک ہزار 192 زخمی ہوئے، اسی طرح 582 بچوں کو بھی نقصان پہنچا جس میں 150 بچے جاں بحق اور 432 زخمی ہوئے۔

ساتھ ہی رپورٹ میں یہ بھی نشاندہی کی گئی تھی کہ اس عرصے کے دوران طالبان کے مقابلے میں امریکی اور افغان فورسز نے افغانستان میں شہریوں کو زیادہ قتل کیا۔

مزید پڑھیں: افغانستان: ’افغان اور امریکی فوجیوں کے حملوں میں زیادہ شہری جاں بحق ہوئے‘

اس معاملے پر امریکی نمائندہ خصوصی نے ایک سماجی روابط کی ویب سائٹ ٹوئٹ پر اپنے ایک پیغام میں کہا کہ ’ہم شہریوں کی ہلاکتوں کی رپورٹس سے پریشان ہیں، ہر ایک اس جنگ کا غیر ضروری شکار ہوا جو بہت طویل ہوگئی ہے‘۔

زلمے خلیل زاد نے لکھا کہ ’میں طالبان کو چیلنج کرتا ہوں کہ وہ دیگر افغانوں کے ساتھ شامل ہوں اور اس سال کو پرامن بنانے کے لیے کام کریں‘۔

انہوں نے جنگ کا ذکر کرتے ہوئے مزید لکھا کہ ’بیٹے اور بیٹیاں، بھائیوں اور بہنوں، پڑوسیوں اور دوستوں، کی موت ہم سب کو غم زدہ کرتی ہیں اور ہم ان افغانوں کے ساتھ کھڑے ہیں جو اموات کے خلاف احتجاج کرتے ہیں اور وہ اس خون ریزی کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔

زلمے خلیل زاد کی بات کریں تو وہ افغان امن عمل میں امریکا کی جانب سے مذاکراتی ٹیم کے سربراہ ہیں اور وہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے دوبارہ آغاز کے لیے خطے میں واپس آئے تھے تاہم گزشتہ ہفتے شیڈول مذاکرات کو طالبان نے اس وقت ملتوی کردیا جب کابل نے 350 افراد پر مشتمل وفد بھیجنے کا فیصلہ کیا۔

قطری دارالحکومت دوحہ میں طالبان کے صرف 10 لوگ ہیں اور یہاں امریکا اور طالبان کے درمیان پہلے ہی مذاکرات کے 6 دور ہوچکے ہیں۔

واشنگٹن میں سفارتی مبصر کے طور پر زلمے خلیل زاد سمجھتے ہیں کہ شہریوں کی ہلاکتیں امن عمل کو مزید پیچیدہ کردیں گی، ساتھ ہی وہ یہ لکھتے ہیں کہ کہ ’فوجی آپریشن کے دوران کسی بے گناہ کی جان کے نقصان پر ہمیں افسوس ہے، ہم کبھی بے گناہوں کو نشانہ نہیں بناتے، جنگ ناقابل اعتبار ہے اور اس کے غیر ارادی نتائج تباہ کن ہوتے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب ہم ہلاکتوں کو روکنے کے لیے کوشش کرتے ہیں تو اس کا واحد حل جنگ بندی یا پائیدار امن کے لیے تشدد کو کم کرنا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں طالبان کا فوجی اڈے پر حملہ، 12 افراد ہلاک

طالبان کے اس بیان کے مذاکرات کے اگلے دور کے لیے جنگ بندی ایجنڈے میں شامل نہیں ہے کا حوالہ دیتے ہوئے زلمے خلیل زاد نے کہا کہ ’ہمارے لیے امن ایجنڈا ہے، افغان لوگ کافی تشدد دیکھ چکے ہیں اور وہ جنگ کا خاتمہ چاہتے ہیں‘۔

علاوہ ازیں امریکی نمائندہ خصوصی نے لندن میں افغان امن عمل کے ایک اجلاس میں شرکت کی، جس میں ان کے برطانیہ، جرمنی، فرانس، اٹلی، ناروے اور یورپین یونین کے ہم منصب بھی شریک تھے۔

اس اجلاس میں افغان امن عمل کے لیے بین الاقوامی حمایت، انٹرا افغان مذاکرات کی بحالی اور تشدد کی کمی کی ضرورت کا اعادہ کیا۔


یہ خبر 26 اپریل 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں