کراچی کے ساحلوں پر زندگی اور موت کا کھیل

06 مئ 2019
ساحل سمندر پر آنے والوں کی اکثریت کو تیرنا نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ لائف گارڈز کی ہدایات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔—وائٹ اسٹار
ساحل سمندر پر آنے والوں کی اکثریت کو تیرنا نہیں آتا لیکن پھر بھی وہ لائف گارڈز کی ہدایات ماننے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔—وائٹ اسٹار

سینڈس پٹ بیچ پر مامور لائف گارڈ سلیم نے بارہا کہا، ’میڈیم، خدارا اس جگہ سے دُور ہو جائیں، یہ محفوظ مقام نہیں کیونکہ لہروں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔‘

اس پر ایک عمر رسیدہ خاتون نے تند و تیز لہجے میں جواب دیا، ’تمہیں کہاں سے کوئی لہر یہاں تک آتی دکھائی دے رہی ہے؟ ویسے بھی ہم بہت دُور خشک جگہ پر کھڑے ہیں!‘ وہ عمر رسیدہ اپنے رشتہ داروں کے 12 سے 36 ماہ کی عمر کے ان 5 بچوں کو سنبھالنے میں مصروف تھی جو گرمیوں کی ایک دوپہر سیر و تفریح کے لیے آئے ہوئے تھے۔

بچوں کی حفاظت سے متعلق سلیم کی فکر بڑھتی گئی اور اس نے 2 بار اس فیملی کو ساحل سے دُور جانے کے لیے کہا۔ جب اس نے آخری بار کوشش کی تو اسے نہ صرف سخت لفظوں کا سامنا کرنا پڑا بلکہ جسمانی جارحیت بھی سہنی پڑی۔ اس کی تمام کوشش رائیگاں گئیں اور وہ وہاں سے چلا گیا پھر کچھ دیر بعد اسی خاندان کی چیخ و پکار سن کر دوڑتا ہوا لوٹا جن کے بچوں کو ایک لہر اپنے ساتھ بہا لے گئی تھی۔ سلیم نے 3 بچوں کو تو بچا لیا تھا لیکن 2 بچے ڈوب چکے تھے۔

مون سون کے ہر موسم میں اس قسم کی کہانیاں اکثر سننے کو ملتی ہیں۔ ساحلِ سمندر پر آنے والوں کی اکثریت کو تیرنا نہیں آتا لیکن اس کے باوجود وہ وہاں موجود لائف گارڈز کی ہدایات پر عمل کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ لائف گارڈز جب لوگوں پر زور ڈال رہے ہوتے ہیں کہ اونچی لہروں سے فاصلہ رکھیں تو ان کو بُرا رویہ سہنے کو ملتا ہے، اور لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ ان اونچی لہروں میں شامل ہوجائیں۔

تقریباً 40 کلیومٹر پر پھیلی کراچی کی ساحلی پٹی میں سی ویو، کلفٹن، سینڈس پٹ، ہاکس بے، فرینچ بیچ، کینپ پوائنٹ، پیراڈائس پوائنٹ، کیپ مونزے، سنہری اور مبارک ولیج کے ساحل شامل ہیں۔ وسط مئی سے وسط اگست تک مون سون کے موسم کے دوران سمندر طوفان خیز ہوتا ہے اور پورے سال کے دوران یہی وہ وقت ہوتا ہے جب بڑی تعداد میں لوگ ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔

مون سون کے موسم میں شہر کے ساحل بہت زیادہ پُرخطر ہوتے ہیں کیونکہ بحیرہ عرب گرم پانیوں کے باعث کبھی بھی ایک حالت میں نہیں رہتا۔ ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ پاکستان میں اسکولوں کی چھٹیوں اور مون سون کے موسم کی آمد ایک ساتھ ہوتی ہے۔ لہٰذا یہی وہ وقت ہے کہ جب بڑی تعداد میں لوگ ساحل سمندر کا رخ کرتے ہیں اور چھٹیوں اور مون سون کے موسم کے اس ملاپ کو خطرناک کہا جاسکتا ہے۔

دنیا کے تمام ساحل ایک دوسرے سے الگ ہیں اور ان سے ملحقہ زمین بھی الگ الگ ہوتی ہے۔ یہی بات کراچی کے ساحلوں پر مصداق آتی ہے۔ مثلاً، سینڈس پٹ ساحل کے قریب سمندر کافی گہرا ہے، یعنی اگر کوئی کمر تک سمندر کے پانی میں چل رہا ہے تو وہ کسی بھی وقت اچانک سمندر کی گہرائی میں اتر سکتا ہے۔

فرینچ بیچ بہت ہی زیادہ پتھریلا ہے اور چٹان کی موجودگی کے باعث کناروں پر بھی تیز اور اونچی لہروں کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ ہاکس بے کو سب سے زیادہ خطرناک تصور کیا جاسکتا ہے کیونکہ یہ کھلے سمندر کے پاس واقع ہے اور یہاں ہر وقت خطرناک لہروں کا خطرہ رہتا ہے، اور ان لہروں کی موجودگی میں آپ اپنی مرضی کی سمت میں تیر کر واپس نہیں آسکتے۔ بچنے کا واحد طریقہ یہ ہوتا ہے کہ ساحل کے ساتھ ساتھ تیرتے رہیں اور لہر کے ساتھ تیر کر لوٹنے کی کوشش کریں۔ تاہم زیادہ تر لوگ خوف زدہ ہوجاتے ہیں اور خود کو بچانے کی اس کوشش میں ناکام ہوکر ڈوب جاتے ہیں۔

لائف گارڈ بچے کو بچانے کے لیے غوطہ لگا رہا ہے—تصویر بشکریہ لکھاری
لائف گارڈ بچے کو بچانے کے لیے غوطہ لگا رہا ہے—تصویر بشکریہ لکھاری

ساحل کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔ انسانوں کی ہی طرح ان کا مزاج بھی بدلتا رہتا ہے، مون سون کے موسم میں یہ بہت ہی خطرناک ہوجاتا ہے۔ بدقسمتی سے لوگ اکثر فطرت کی اس طاقت سے لڑنے کی کوشش کرتے ہیں اور پھر پورا کا پورا خاندان صرف ایک فرد کو بچانے کی کوشش میں ڈوب جاتا ہے۔

مون سون کے دوران حکومت تیرنے پر پابندی عائد کردیتی ہے اور کبھی کبھار چند پولیس اہلکاروں کی جانب سے لوگوں کو پانی میں جانے سے روکتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔

تاہم، یہ اقدامات کافی نہیں۔ جس چیز کی ضرورت ہے وہ ہے زیادہ ریسکیو سروسز اور لائف گارڈز کی۔

یہی وہ وقت ہوتا ہے جب لائف گارڈز کی طلب سب سے زیادہ ہوتی ہے اور لاشوں کو غوطہ خوروں کی مدد سے ڈھونڈنے سے زیادہ اہمیت اس بات کی ہوتی ہے کہ زندہ لوگوں کو ڈوبنے سے بچایا جائے۔ یہ ساحلوں پر پیٹرولنگ کرنے والے لائف گارڈرز کی کوششیں ہی ہیں جو زندگیاں بچانے کا باعث بنتی ہیں۔

کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی) اور کینٹونمنٹ بورڈ کلفٹن (سی بی سی) جیسے سرکاری ادارے ان رش زدہ ساحلوں پر لائف گارڈز سے لے کر تحفظ کی سہولیات فراہم کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ان حکام نے کراچی کے اہم ساحلوں پر 40 سے زائد لائف گارڈز تعینات کیے ہوئے ہیں اور مون سون کے دوران انہیں ہر وقت ہائی الرٹ رہنا پڑتا ہے۔

کے ایم سی کی حدود میں ساحلی پٹی کے جو حصے (تقریباً کل ساحلی کا نصف حصہ) آتے ہیں وہاں کی پیٹرولنگ کے لیے 2 ایمبولینسز کی خدمات حاصل کی گئی ہیں۔ یہاں لائف گارڈز کی ضرورت اور ان کی فراہمی کی صورتحال توقع کے برعکس بالکل ہی مختلف ہے، خصوصاً سی ویو پر، جہاں لوگوں کا زیادہ رش ہوتا ہے۔

کے ایم سی کے ڈائریکٹر میڈیا مینجمنٹ، بشیر صدوزئی کہتے ہیں کہ ’کے ایم سی ہاکس بے پر واقع اپنا ایمرجنسی ریسپانس سینٹر چلاتی ہے جہاں 40 تربیت یافتہ لائف گارڈز تعینات ہیں، جن میں سے ہر ایک 12 گھنٹوں کی شفٹ میں اپنے کام پر مامور رہتا ہے۔ پھر جتنی طلب ہو اس حساب سے ان فرائض کی انجام دہی کے لیے زیادہ لوگ تعینات کیے جاتے ہیں، مون سون کے دوران طلب زیادہ ہوتی ہے۔ ‘

سی بی سی کے چیف سینیٹری انسپیکٹر محمد شبیر اختر نے بتایا کہ ’وہ ایسے لوگوں کو تعینات کرتے ہیں جو بحریہ سے تربیت یافتہ ہوں تاکہ وہ بطور لائف گارڈز بہتر خدمات انجام دے سکیں‘۔ وہ بتاتے ہیں کہ ’3 کلومیٹر پر محیط سی ویو بیچ کے علاقے کو کور کرنے کے لیے ہمارے پاس 9 لائف گارڈز ہیں اور وہ 2، 2 شفٹوں میں کام کرتے ہیں۔ زندگی بچانے کے لیے مطلوبہ سہولیات سے خود کو بہتر انداز میں لیس کرنے کے لیے ہم اپنی خدمات کی فراہمی میں مزید بہتری لانے کا ادارہ رکھتے ہیں۔ ان سہولیات میں دیگر چیزوں کے ساتھ پیٹرولنگ کے لیے مختص گاڑی اور ساحل کے قریب ہمارے لائف گارڈز کے لیے ایک دفتر شامل ہیں۔ تاہم ہم صرف اپنے علاقے تک محدود نہیں ہیں کیونکہ جب جان بچانے کی بات آتی ہے تو ہمارے آدمی ضرورت پڑنے پر مقررہ علاقے سے دُور بھی چلے جاتے ہیں۔‘

ساحل پر آنے والوں کو حفاطتی خدمات فراہم کرنے والی غیر منافع بخش تنظیم پاکستان لائف سیونگ فاؤنڈیشن (پی اے ایل ایس ریسکیو) کے چیف ایڈمنسٹریٹر سید محمد احسن بتاتے ہیں کہ ’2004ء میں باقاعدہ جان بچاؤ سروس شروع کرنے سے قبل، مقامی دیہاتی مرنے والوں کی ممکنہ تعداد قصے کہانیوں کی طرح ایک دوسرے بتایا کرتے تھے۔ مثلاً، آج 14 اگست ہے تو اس کا مطلب ہے کہ 14 لوگ مرسکتے ہیں یا پھر آج عید ہے، ہم 30 افراد کے مارے جانے کی توقع کرسکتے ہیں۔ کیونکہ گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران ہمارے تمام ساحلوں پر بہت زیادہ رش ہوتا ہے۔‘ پی اے ایل ایس ریسکیو کا قیام عمل میں آنے سے قبل کراچی میں سالانہ 250 اموات واقع ہوا کرتی تھیں، تاہم اب یہ تعداد نمایاں طور پر نہ ہونے کے برابر گھٹ چکی ہے۔

پی اے ایل ایس ریسکیو نجی حیثیت میں ساحل پر کام کرنے والی سیفٹی سروس ہے اور کراچی کے ساحلوں پر جان بچاؤ سہولیات فراہم کرتی ہے۔ یہ سروس لائف گارڈ پیٹرولنگ، تعلیم اور تحفظ عامہ کی مہمات کے ذریعے ساحلی پٹی پر ایک محفوظ ماحول پیدا کرنے میں کامیاب رہی ہے۔

ایک سرسری تخمینے کے مطابق ہر سال 80 لاکھ لوگ پورے شہر کے ساحلوں کا رخ کرتے ہیں۔ 2004ء سے اب تک پی اے ایل ایس ریسکیو نے اپنے 250 تربیت یافتہ لائف گارڈز کی مدد سے 5 ہزار زندگیاں بچائی ہیں اور 6 ہزار افراد کو فوری طبی امداد فراہم کی جبکہ 70 لاکھ سے زائد حفاظتی اقدامات میں حصہ لیا۔ یہاں یہ بھی بتاتے چلیں کہ چند اہم موقعوں پر یہ طلب دگنی ہوجاتی ہے،

تاہم کراچی کے ساحلوں پر تحفظ کو یقینی بنانے کے لیے ایک تنظیم ناکافی ہے۔ اگرچہ پی اے ایل ایس ساحل پر آنے والوں کو تحفظ فراہم کرنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے لیکن حکومتی سطح پر مستقل بنیادوں پر ایسے ٹھوس اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے تاکہ مون سون کے دوران بھی پکنک منانے کے لیے کراچی کے ان زبردست مقامات پر لوگ خود کو محفوظ تصور کرسکیں۔


یہ مضمون 5 مئی 2019ء ڈان اخبار کے ای او ایس میگزین میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

Murad May 06, 2019 04:13pm
Put a 2% lifeguard tax on all revenue of seaside restaurants and strengthen the lifeguard force with the collection.