اسلام آباد میں میرے لیے گاڑی چلانا ممکن نہیں، قائم مقام چیف جسٹس

17 مئ 2019
جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں سڑکوں کی صورتحال پر انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی
جسٹس گلزار احمد نے اسلام آباد میں سڑکوں کی صورتحال پر انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لیا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

قائم مقام چیف جسٹس گلزار احمد نے سینٹورس مال تجاوزات کیس میں چیئرمین سی ڈی اے سے تمام کارروائیوں کی تصاویر پر مبنی رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے میئر اسلام آباد اور چیئرمین این ایچ اے کو آئندہ سماعت پر طلب کر لیا۔

جسٹس گلزار احمد نے دوران سماعت ریمارکس دیے کہ اسلام آباد کی کسی بڑی سڑک پر یوٹرن نہیں ہونے چاہیئں، مجھے گاڑی چلاتے ہوئے 40 سال ہوچکے ہیں، وفاقی دارالحکومت میں گاڑی چلانا میرے لیے ممکن نہیں۔

سینٹورس مال تجاوزات کیس کی سماعت قائم مقام چیف جسٹس، جسٹس گلزار احمد کی زیر سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی۔

یہ بھی پڑھیں: بنی گالا تجاوزات،سی ڈی اے کا وزیراعظم کو نوٹس جاری کرنے کا فیصلہ

عدالت نے میئر اسلام آباد اور چیئرمین این ایچ اے کو آئندہ سماعت پر طلب کرتے ہوئے کہا کہ آگاہ کیا جائے اسلام آباد اور ہائی ویز سے تجاوزات کے خاتمہ کیلئے کیا اقدامات کیے گئے اور تمام کارروائیوں کی تصاویر پر مبنی رپورٹ پیش کی جائے۔

چیئرمین سی ڈٰی اے نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ سینٹورس سے سروس روڈز واگزار کروا لی ہیں جبکہ بلیو ایریا سمیت شہر بھر میں بھرپور آپریشن جاری ہے، شہر کو جلد تجاوزات سے پاک کر لیں گے۔

جس پرعدالت عظمیٰ کے بینچ میں شامل جسٹس سردار طارق نے کہا کہ مارگلہ روڈ پر آج بھی بیرئیر لگے ہوئے ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس جسٹس گلزار احمد نے چئیرمین سی ڈی اے کے دعوے پر ریمارکس دیے کہ ابھی چل کر دیکھ لیتے ہیں کتنی تجاوزات ختم ہوئی ہیں، کشمیر ہائی وے اور ایکسپریس وے کا برا حال ہے، بڑی شاہراہوں پر پیدل چلنے والوں کے لیے پیڈسٹیرین برج بھی موجود نہیں ہیں، سڑکوں پر لگے ریفلیکٹر بھی خراب ہیں۔

قائم مقام چیف جسٹس نے مزید ریمارکس دیے کہ بہارہ کہو سے مری کی طرف جانا محال ہوچکا ہے، ایمبیسی روڈ کی گرین بیلٹ پر بھی قبضہ ہوچکا ہے۔

مزید پڑھیں: کیا سی ڈی اے ضبط جائیداد مسمار کرسکتی ہے، پرویز مشرف کا سوال

جس پر چیئرمین سی ڈی اے نے بتایا کہ وہ عدالت کو اپنی کارکردگی سے مطمئن کریں گے۔

جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس میں کہا کہ اسلام آباد میں پبلک ٹرانسپورٹ کی سہولت کیوں نہیں ہے؟ ججز کالونی آنے والوں کو بھی میلوں دور اتر کر پیدل آنا پڑتا ہے، اسلام آباد میں تو انڈر گراؤنڈ ٹرینیں چلنی چاہئیں، لوگوں کو دفاتر سے پیدل گھر جانا پڑتا ہے۔

بعد ازاں سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت دو ہفتے کےلیے ملتوی کر دی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Shiv shankar May 17, 2019 10:06pm
جسٹس صاحب کو کراچی کے ٹریفک اور شاپنگ مالز کے باہر کھڑے کے ایم سی کے ٹکٹ فروشوں اور امتیاز اور چیز مال کے باہر روڈ پر کھڑی گاڑیوں کو ٹریفک ڈپارٹمنٹ اور ان ڈائریکٹلی سندھ حکومت کی جانب سے تحفظ دینے پر بھی غور کرنا چاہئے