’امریکا، طالبان مذاکرات میں دہشت گرد تنظیمیں سب سے بڑی رکاوٹ‘

اپ ڈیٹ 25 مئ 2019
پینٹاگون سے جاری ہونے والی رپورٹ میں مارچ 31 کو اختتام پذیر ہونے والی سہہ ماہی کا جائزہ لیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
پینٹاگون سے جاری ہونے والی رپورٹ میں مارچ 31 کو اختتام پذیر ہونے والی سہہ ماہی کا جائزہ لیا گیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

واشنگٹن: امریکی محکمہ دفاع نے کہا ہے کہ افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی، امریکا اور طالبان کے درمیان جاری مذاکرات کی قسمت کا تعین کرے گی۔

پینٹاگون کے آپریشن فریڈم سینٹینل کے لیڈ انسپکٹر جنرل کی رپورٹ میں مارچ 31 کو اختتام پذیر ہونے والی رواں سال کی سہہ ماہی کا جائزہ لیا گیا اور دونوں ممالک (پاکستان اور افغانستان) میں دہشت گرد گروہوں کی سرگرمیوں کی نشاندہی کی گئی۔

رپورٹ میں خاص طور پر القاعدہ اور داعش خراسان کا ذکر کرتے ہوئے کہا گیا کہ آپریشن فریڈم سینٹینل (او ایف سی) مشن کی مرکزی توجہ ان دونوں گروہوں پر تھی جو مفاہمتی عمل کے اہم ترین تحفظات میں سے ایک ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا اور طالبان تمام اہم معاملات پر رضامند ہوگئے، زلمے خلیل زاد

خیال رہے کہ آپریشن فریڈم سینٹینل (او ایف ایس) امریکی حکومت کی سربراہی میں دہشت گردی کے خلاف عالمی سطح پر لڑی جانے والی جنگ کا باضابطہ نام ہے۔

رپورٹ میں افغانستان کے حوالے سے امریکا کے خدشات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا گیا کہ ’امن کے لیے جاری مذاکرات میں یہ سوال انتہائی اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کیا طالبان ان گروہوں پر اثر انداز ہونے میں مدد اور انہیں پناہ گاہیں فراہم کرنے سے انکار کرسکتے ہیں، جس حد تک امریکا کی جانب سے اختیار کیے جانے والے انسدادِ دہشت گردی کی ضرورت ہے۔

اس ضمن میں امریکا اور افغان حکام کا کہنا تھا کہ افغانستان اور پاکستان میں کم از کم 20 دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں۔

علاوہ ازیں مذکورہ رپورٹ میں اس بات کا تخمینہ بھی لگایا گیا ہے کہ خطے میں موجود ان دہشت گرد تنظیموں میں کتنے جنگجو ہوسکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: طالبان مذاکرات: امریکا اور افغان حکومت میں اختلافات کھل کر سامنے آگئے

رپورٹ کے مطابق ان میں سے زیادہ تر گروہوں کو عالمی سطح تک رسائی یا پنپنے کا موقع حاصل نہیں، مثلاً تحریک طالبان پاکستان، جو ایک بڑا دہشت گرد گروہ ہے، کی توجہ پاکستانی حکومت کے خلاف جنگ کرنے پر مرکوز ہے۔

رپورٹ میں دیے گئے اندازوں کے مطابق داعش خراسان، حقانی نیٹ ورک اور تحریک طالبان پاکستان، خطے کے 3 سب سے بڑے گروہ ہیں، جن میں 3 ہزار سے 5 ہزار جنگجو شامل ہیں۔

ان کے بعد اسلامک امارات ہائی کونسل چوتھا بڑا گروہ ہے جس میں ایک ہزار جنگجو شامل ہیں جبکہ القاعدہ، جو افغانستان میں امریکا کے حملے سے قبل سب سے مضبوط گروہ تھا اب محض 300 جنگجنوؤں تک محدود رہ گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: افغان طالبان کو امریکا سے معاہدہ طے پانے کی توقع

اس کے ساتھ ساتھ اسلامک موومنٹ آف ازبکستان اور لشکرِ طیبہ کے پاس بھی تقریباً 300 جنگجو ہیں، طارق گیڈر گروپ میں 100 سے 300 کے درمیان جنگجو، جماعت الاحرار کے 200، اسلام ترکمانستان موومنٹ میں 100، اسلامک جہاد یونین میں 25 اور جماعت الدعوہ القرآن میں بھی 25 جنگجو شامل ہیں۔


یہ خبر 25 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں