ساجد جاوید بھی برطانوی وزیر اعظم کی دوڑ میں شامل

اپ ڈیٹ 28 مئ 2019
ساجد جاوید کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کے لیے نویں امیدوار ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی
ساجد جاوید کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کے لیے نویں امیدوار ہیں — فائل فوٹو/اے ایف پی

بریگزٹ میں ناکامی پر برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسامے کی جانب سے استعفے کے اعلان کے بعد وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں نویں امیدوار ساجد جاوید بھی شامل ہوگئے ہیں۔

بریگزٹ معاہدے میں ناکامی سے دلبرداشتہ ہو کر تھریسامے نے چند روز قبل وزارت عظمیٰ اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفیٰ ہونے کا اعلان کیا تھا۔

ان کے اعلان کے ساتھ ہی کنزرویٹو پارٹی کے نئے سربراہ کے لیے 8 امیدواروں نے اپنی خدمات پیش کی تھیں، تاہم اب سیکریٹری داخلہ ساجد جاوید نے بھی وزارت عظمیٰ کی اس دوڑ میں شمولیت اختیار کرلی ہے۔

واضح رہے کہ کنزرویٹو پارٹی کا نیا سربراہ ہی برطانیہ کا وزیر اعظم ہوگا۔

برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' کی رپورٹ کے مطابق ٹوئٹر پر اعلان کرتے ہوئے ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ 'سب سے پہلے اور سب سے اہم، ہمیں بریگزٹ کو پورا کرنا ہے'۔

ویڈیو بیان میں ساجد جاوید کا کہنا تھا کہ وہ دوبارہ بھروسہ اور اتحاد قائم کرنا چاہتے ہیں تاکہ ملک کے لیے نئے مواقع پیدا ہوں۔

یہ بھی پڑھیں: بریگزٹ معاہدے پر ووٹنگ، برطانوی وزیر اعظم کو بدترین شکست

ان کا کہنا تھا کہ ' یورپی انتخابات کے نتائج میں دیکھا گیا گیا کہ ان کی جماعت کو 10 فیصد سے بھی کم ووٹ ملے جو 2014 میں 25 فیصد تھے، اس سے یہ واضح ہے کہ حکومت کو بریگزٹ پر عمل کرنا ہوگا تاکہ جمہوریت پر دوبارہ یقین بحال ہوسکے'۔

انہوں نے مزید کہا کہ 'ہمیں اختلافات کو دور کرتے ہوئے تمام برادری کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا، ہمیں اپنے معاشرے اور معیشت کو مضبوط بنانا ہوگا تاکہ ملک کے بہتر ہونے سے ملنے والے مواقع سے سب فائدہ اٹھا سکیں'۔

کنزرویٹو پارٹی کی سربراہی کے لیے دیگر امیدواروں میں سیکریٹری خارجہ جیریمی ہنٹ، بین الااقوامی ڈیولپمنٹ سیکریٹری روری اسٹیورٹ، سابق سیکریٹری خارجہ بورس جونس، سابق ورک اینڈ پنشن سیکریٹری ایستھرمک وے، سابق بریگزٹ سیکریٹری ڈومینک راب، سابق لیڈر آف دی ہاؤس اینڈریا لیڈ سم، سیکریٹری ماحولیات مائیکل گوو اور سیکریٹری صحت میٹ ہین کوک شامل ہیں۔

خیال رہے کہ چند روز قبل برطانوی وزیر اعظم تھریسامے نے انتہائی جذباتی انداز میں اعلان کیا تھا کہ وہ 7 جون کو وزیر اعظم اور حکمراں جماعت کنزرویٹو اور یونینسٹ پارٹی کی سربراہ کے عہدے سے مستعفی ہوجائیں گی۔

ملک کا اگلا وزیر اعظم بننے کے امیدوار یورپی یونین سے سخت شرائط پر علیحدگی کا معاہدہ چاہتے ہیں جبکہ یورپی یونین پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ وہ نومبر میں طے کیے گئے معاہدے پر دوبارہ مذاکرات نہیں کرے گی۔

مزید پڑھیں: برطانیہ کا اگلا وزیراعظم کون ہوگا؟ 5 امیدوار دوڑ میں شامل

تھریسامے نے 21 مئی کو برطانوی اراکین پارلیمنٹ کو اس صورت میں نئے ریفرنڈم کا موقع دینے کا کہا تھا کہ اگر وہ تیسری مرتبہ مسترد کیے گئے معاہدے کی حمایت کرتے۔

تاہم کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے انہیں استعفے کی تاریخ کا اعلان کرنے کے لیے جمعہ تک کا وقت دیا جس پر برطانوی میڈیا کا کہنا تھا کہ وہ 10 جون کو عہدے سے مستعفی ہوں گی۔

'بریگزٹ'، کب کیا ہوا ؟

واضح رہے کہ 2016 میں برطانیہ میں ہونے والے حیرت انگیز ریفرنڈم میں برطانوی عوام نے یورپی یونین سے اخراج کے حق میں ووٹ دیا تھا جس کے بعد طے کیا گیا تھا 29 مارچ 2019 کو برطانیہ، یورپی یونین سے علیحدگی اختیار کرلے گا۔

جولائی 2016 کو وزیر اعظم بننے والی تھریسامے نے بریگزٹ معاہدے پر عوامی فیصلے کو عملی جامہ پہنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن شدید مخالفت کے بعد سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے اور وہ اراکین پارلیمنٹ کو منانے کی کوشش کررہی ہیں کہ وہ اخراج کے معاہدے کو قبول کرلیں۔

اس معاہدے پر ووٹنگ گزشتہ سال دسمبر میں ہونا تھی لیکن بعد ازاں اسے جنوری تک کے لیے ملتوی کردیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: برطانیہ کو بریگزٹ معاہدے کی تکمیل میں 6 ماہ تک کی توسیع مل گئی

مارچ 2017 میں برسلز میں شروع ہونے والے سخت مذاکرات کے نتیجے میں معاہدے کے مسودے پر اتفاق کیا گیا تھا جبکہ یورپی رہنماؤں نے دوبارہ مذاکرات کے امکان کو مسترد کردیا تھا اور اس غیر یقینی صورتحال کی وجہ سے برطانوی معیشت میں مستقل اضطراب پایا جاتا ہے۔

بریگزٹ کے حوالے سے کی گئی پہلی ووٹنگ میں تھریسامے کے خلاف 308 ووٹ سے ترمیم پاس کی گئی جس میں حکمراں جماعت کے درجنوں اراکین بھی شامل تھے جبکہ 297 اراکین نے وزیراعظم کے حق میں ووٹ دیا تھا۔

برطانوی وزیراعظم تھریسامے کی اپنی جماعت کنزرویٹو پارٹی کے اراکین نے بھی لیبرپارٹی کا ساتھ دیا جس کے بعد 29 مارچ کو یورپی یونین سے مکمل علیحدگی کے حوالے سے خدشات پیدا ہوگئے تھے۔

تاہم تھریسامے کو سب سے بڑی ناکامی کا سامنا اس وقت کرنا پڑا جب 16 جنوری کو برطانوی پارلیمنٹ نے یورپی یونین سے علیحدگی کے وزیر اعظم تھریسامے کے بل کو واضح اکثریت سے مسترد کردیا اور انہیں 202 کے مقابلے میں 432 ووٹ سے شکست ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا تھا۔

مزید پڑھیں: برطانوی پارلیمنٹ نے 'بریگزٹ' معاہدہ تیسری مرتبہ مسترد کردیا

بعد ازاں رواں سال 29 مارچ کو برطانیہ کی پارلیمنٹ نے وزیر اعظم تھریسا مے کے بریگزٹ معاہدے کو تیسری مرتبہ کثرت رائے سے مسترد کردیا۔

برطانوی دارالعوام میں بریگزٹ معاہدے کے حق میں 286 جبکہ مخالفت میں 344 ووٹ دیے گئے جس کے بعد بعد آئندہ دو ہفتوں میں معاہدے کے بغیر بریگزٹ ہوگا یا اس میں طویل تاخیر ہونے کے امکانات پیدا ہوگئے تھے۔

رواں سال 11 اپریل کو یورپی ممالک کے رہنماؤں نے برطانیہ کے ساتھ بریگزٹ معاہدے پر 6 ماہ تک کی توسیع پر آمادگی کا اظہار کردیا تھا۔

بریگزٹ میں توسیع کے معاملے میں یورپی ممالک کے 27 رہنماؤں نے برسلز میں مذاکرات کرنے کے بعد فیصلہ سنایا تھا۔

یاد رہے کہ برطانیہ نے 1973 میں یورپین اکنامک کمیونٹی میں شمولیت اختیار کی تھی تاہم برطانیہ میں بعض حلقے مسلسل اس بات کی شکایات کرتے رہے ہیں کہ آزادانہ تجارت کے لیے قائم ہونے والی کمیونٹی کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جارہا ہے جس کی وجہ سے رکن ممالک کی ملکی خودمختاری کو نقصان پہنچتا ہے۔

بریگزٹ کے حامیوں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین سے علیحدگی کے بعد ابتدا میں معاشی مشکلات ضرور پیدا ہوں گی تاہم مستقبل میں اس کا فائدہ حاصل ہوگا کیوں کہ برطانیہ یورپی یونین کی قید سے آزاد ہوچکا ہوگا اور یورپی یونین کے بجٹ میں دیا جانے والا حصہ ملک میں خرچ ہوسکے گا۔

تبصرے (0) بند ہیں