سپریم کورٹ: آصف زرداری نے جعلی اکاؤنٹس کیس منتقلی کا فیصلہ چیلنج کردیا

اپ ڈیٹ 28 مئ 2019
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کیس میں آصف زرداری کو عبوری چالان میں ملزم نہیں بتایا گیا — فائل فوٹو/ آن لائن
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ کیس میں آصف زرداری کو عبوری چالان میں ملزم نہیں بتایا گیا — فائل فوٹو/ آن لائن

اسلام آباد: سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے جعلی اکاؤنٹس کیس کو کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا۔

آصف زرداری نے اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے ذریعے ان کے خلاف کیس کو بینکنگ کورٹ سے اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کرنے کے خلاف اپیل دائر کی۔

عدالت عظمیٰ میں جمع کروائی گئی درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ان کے موکل آصف زرداری کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے جبکہ اس سے قبل بھی آصف زرداری پر من گھڑت اور جھوٹے مقدمات بنائے گئے جن میں وہ باعزت بری ہوئے۔

آصف زرداری کا درخواست میں مزید کہنا تھا کہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں آصف زرداری کو عبوری چالان میں ملزم نہیں بتایا گیا۔

مزید پڑھیں: جعلی اکاؤنٹس کیس منتقلی کے خلاف اپیل کیلئے آصف زرداری کو 2 ہفتوں کی مہلت

درخواست میں بتایا گیا کہ سپریم کورٹ نے جعلی اکاؤنٹس معاملے کی تحقیقات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) سے کروائیں لیکن سپریم کورٹ نے یہ کیس بینکنگ کورٹ سے منتقل کرنے کا فیصلہ نہیں دیا، عدالت عظمیٰ نے قومی احتساب بیورو (نیب) کو معاملے کی انکوائری و تحقیقات کا حکم دیا تھا۔

آصف زرداری کے وکیل نے اپنی درخواست میں موقف اختیار کیا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی غلط تشریح کی گئی۔

سپریم کورٹ سے استدعا کی گئی کہ جعلی بینک اکاؤنٹس کیس کے منطقی انجام تک پہنچنے تک اس کی منتقلی کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔

درخواست میں چیئرمین نیب اور بینکنگ کورٹ کو فریق بنایا گیا ہے۔

خیال رہے کہ بینکنگ عدالت نے گزشتہ روز قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کی درخواست پر مقدمہ کراچی سے اسلام آباد منتقل کرنے کی اجازت دی تھی۔

21 مئی 2019 کو سپریم کورٹ رجسٹرار آفس نے شریک چیئرمین پیپلز پارٹی (پی پی پی) آصف علی زرداری اور ان کی ہمشیرہ فریال تالپور کو جعلی اکاؤنٹس کیس بینکنگ کورٹ سے احتساب عدالت منتقل کرنے کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے مزید 2 ہفتوں کی مہلت دی تھی۔

واضح رہے کہ سندھ ہائی کورٹ نے کراچی کے بینکنگ کورٹ میں زیر سماعت جعلی اکاؤنٹس کیس کو اسلام آباد کی احتساب عدالت منتقل کرنے کا حکم دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ: جعلی اکاؤنٹس کیس پر نیب کی پہلی پیش رفت رپورٹ جمع

تاہم آصف علی زرداری اور ان کی بہن فریال تالپور نے اس فیصلے کے خلاف عدالت عظمیٰ جانے کا ارادہ کیا تھا اور اس ضمن میں ملزمان نے سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست دائر کرنے کے لیے سپریم کورٹ رجسٹرار آفس مہلت مانگی تھی۔

اپنے وکیل فاروق ایچ نائیک کے توسط سے جمع کروائی گئی درخواست میں انہوں نے موقف اختیار کیا تھا کہ جعلی اکاؤنٹس کیس کا معاملہ احتساب عدالت کے نہیں بلکہ بینکنگ کورٹ کے دائر اختیار میں آتا ہے۔

درخواست میں یہ بھی موقف اختیار کیا گیا تھا کہ کیس سے منسلک دستاویزات حاصل کرنے کے لیے مزید مہلت درکار ہے جبکہ تفصیلی وجوہات کے ساتھ سندھ ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل دائر کرنا چاہتے ہیں، اس لیے اپیل دائر کرنے کیلے 2 ہفتوں کی مہلت دی جائے۔

کیس کا پس منظر

2015 کے جعلی اکاؤنٹس اور فرضی لین دین کے مقدمے کے حوالے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور ان کے کاروباری شراکت داروں سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔

یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ، سندھ بینک اور سمٹ بینک میں موجود ان 29 بے نامی اکاؤنٹس میں موجود رقم کی لاگت ابتدائی طور پر 35ارب روہے بتائی گئی تھی۔

اس سلسلے میں ایف آئی اے نے معروف بینکر حسین لوائی کو گرفتار کیا تھا، جس کے بعد ماہ اگست میں جعلی اکاؤنٹس کیس میں ہی اومنی گروپ کے چیئرمین انور مجید اور ان کے بیٹے عبدالغنی مجید کو بھی گرفتار کر لیا گیا تھا۔

7 ستمبر 2018 کو سپریم کورٹ نے سابق صدر مملکت اور ان کی بہن بہن کی جانب سے مبینہ طور پر جعلی اکاؤنٹس کے ذریعے اربوں روپے کی منی لانڈرنگ کیے جانے کے مقدمے کی تحقیقات کے لیے جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم (جے آئی ٹی) تشکیل دے دی تھی۔

اس جے آئی ٹی نے سابق صدر آصف علی زرداری، ان کی بہت فریال تالپور سے پوچھ گچھ کی تھی جبکہ چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو سے بھی معلومات حاصل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

مزید پڑھیں: آصف زرداری، فریال تالپور کی ضمانت منظور، کیس منتقلی پر حکم امتناع کی درخواست مسترد

آصف علی زرداری نے جے آئی ٹی کو بتایا تھا کہ 2008 سے وہ کسی کاروباری سرگرمی میں ملوث نہیں رہے اور صدر مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے خود کو تمام کاروبار اور تجارتی سرگرمیوں سے الگ کرلیا تھا۔

علاوہ ازیں 3 رکنی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم نے اڈیالہ جیل میں حسین لوائی اور عبدالغنی مجید سے سے ڈیڑھ گھنٹے سے زائد تفتیش کی تھی۔

بعد ازاں اس کیس کی جے آئی ٹی نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی تھی، جس میں 172 افراد کا نام سامنے آیا تھا، جس پر وفاقی حکومت نے ان تمام افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کردیے تھے۔

تاہم 172 افراد کے نام ای سی ایل میں شامل کرنے پر سابق چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے برہمی کا اظہار کیا تھا اور معاملے پر نظرثانی کی ہدایت کی تھی، جس کے بعد عدالت نے اپنے ایک فیصلے میں بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام ای سی ایل سے نکالنے کا حکم دے دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں