سینئر صحافی ادریس بختیار انتقال کر گئے

اپ ڈیٹ 29 مئ 2019
ادریس بختیار اپنے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے اپنا علیحدہ مقام اور استاد کا درجہ رکھتے تھے — فوٹو: امتیاز علی
ادریس بختیار اپنے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے اپنا علیحدہ مقام اور استاد کا درجہ رکھتے تھے — فوٹو: امتیاز علی

سینئر صحافی ادریس بختیار مختصر علالت کے بعد کراچی میں انتقال کر گئے۔

ادریس بختیار گزشتہ تین روز سے قومی ادارہ برائے امراض قلب میں زیر علاج تھے، جہاں دوران علاج وہ خالق حقیقی سے جاملے۔

ادریس بختیار کو ہفتہ کے روز دل میں تکلیف محسوس ہوئی تھی، بعد ازاں انہیں قومی ادارہ برائے امراض قلب منتقل کیا گیا تھا جہاں وہ اینجیو پلاسٹی کے بعد مصنوعی تنفس پر تھے۔

ان کی نماز جنازہ بعد نماز ظہر گلشن اقبال وسیم باغ میں ادا کی جائے گی۔

انہوں نے سوگواران میں بیوہ، تین بیٹے اور پانچ بیٹیاں چھوڑے ہیں۔

14 مئی 1945 کو پیدا ہونے والے ادریس بختیار اپنے منفرد طرز تحریر کی وجہ سے اپنا علیحدہ مقام اور استاد کا درجہ رکھتے تھے۔

عملی صحافت کا آغاز ڈیلی انڈس ٹائمز حیدر آباد سے کرنے والے ادریس بختیار آخری دنوں میں 'جیو نیوز' میں ہیڈ آف ایڈیٹوریل کمیٹی کے طور پر فرائض انجام دے رہے تھے، جبکہ روزنامہ جنگ میں 'شورش دل' کے عنوان سے باقاعدگی سے کالم بھی لکھا کرتے تھے۔

ادریس بختیار نے اگست 1980 سے نومبر 2012 تک ڈان گروپ کے تحت شائع ہونے والے جریدے 'ہیرالڈ' میں بطور چیف رپورٹر اور ایسوسی ایٹ ایڈیٹر کے طور فرائض انجام دیئے، وہ برطانوی نشریاتی ادارے 'بی بی سی' سے بھی وابستہ رہے، اس کے علاوہ برطانوی اخبار 'ٹیلی گراف' کے پاکستان میں نمائندے اور 'عرب نیوز' جدہ میں انچارج ایڈیٹر کے طور پر بھی فرائض انجام دیئے۔

حکومت پاکستان نے ادریس بختیار کو صحافت کے شعبے میں اعلیٰ خدمات پر صدارتی ایواڈ برائے حسن کارکردگی سے بھی نوازا۔

وہ 2011 سے 2014 تک پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس (پی ایف یو جے) دستور کے صدر بھی رہے۔

سینئر صحافی کی وفات پر صحافی برادری اور سیاستدانوں کی طرف سے تعزیت اور انہیں خراج تحسین پیش کیا جارہا ہے۔

کراچی یونین آف جرنلسٹس (کے یو جے)، کراچی پریس کلب اور پی ایف یو جے کے عہدیداران نے سینئر صحافی ادریس بختیار کے انتقال پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں