لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہونے کو ہیں۔ اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم بچوں اور نوجوانوں کو آرام، گھروالوں کے ساتھ زیادہ وقت گزارنے، سماجی تعلقات بڑھانے، دیر تک سونے اور صبح دیر سے اٹھنے، پسندیدہ مشغلوں میں مصروف رہنے اور کھیلوں کی سرگرمیوں سے لطف اندوز ہونے کے لیے 2 ماہ دستیاب ہوں گے۔ چند لوگ ان چھٹیوں میں دیگر شہروں کی سیر یا پھر پاکستان سے باہر سیاحت کرنا چاہیں گے۔

کسی بھی انسان کی شخصی نمو اور اپنی شخصت میں توازن کے لیے مذکورہ بالا تمام سرگرمیاں نہایت ضروری ہیں۔ کم عمر افراد یہ چھٹیاں خود کو روز کی بھاگ دوڑ سے آرام دینے کے مواقع کے طور پر استعمال کریں تو زیادہ بہتر ہے۔ اسکول اور یونیورسٹیاں بچوں پر غیر معمولی تعلیمی و دیگر اقسام کے بوجھ ڈالے رکھتی ہیں۔ روزانہ اسکول میں مخصوص نظم و ضبط کے ساتھ ہونے والی تعلیمی سرگرمی ایک حد تک جسمانی و ذہنی طور پر تھکا دینے والی ہوتی ہے۔ اس لیے ایک وقت آتا ہے کہ جب کم عمر افراد کو منظم انداز میں تقسیم وقت سے زیادہ سکون بخش وقت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے اور گرمیوں کی چھٹیاں انہیں یہ موقع فراہم کرتی ہیں۔

یونیورسٹی کے چند طالب علم کو سمر انٹرنشپ میں خود کو مصروف رکھنا چاہیے۔ جس کی ضرورت انہیں تھوڑا بہت تجربہ اور/یا اپنے پسندیدہ پیشے کے بارے میں قریب سے جاننے کے لیے پڑتی ہے۔ لیکن اگر انٹرنشپ پروگرام نوجوانوں کی تربیت کے اعتبار سے بہتر انداز میں ترتیب نہ دیا گیا ہو تو پھر اس سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا۔ نوجوانوں کو یہ چھٹیاں دستاویزات کی فوٹو کاپی کرتے اور باسز کو کافی پیش کرتے ہوئے گزارنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ایسے میں غیر حوصلہ بخش کام میں مصروف انٹرن بننے سے بہتر ہے کہ گھر پر ہی وقت گزاری کی جائے۔

یہی بات ایک الگ طریقے سے سمر کیمپ اور سمر اسکولوں پر بھی صادق آتی ہے۔ اگر سمر اسکول کی توجہ پورا نصاب دہرانے یا پھر اسے باقی کلاس سے پہلے مکمل کروانے کے وعدے کے ساتھ صرف اور صرف تعلیمی سرگرمیوں پر مرکوز ہوتی ہے تو یہ بھی وقت کا زیان ہے اور میں ایک بار پھر کہوں گا کہ گھر پر بیٹھنا ہی اس کا بہتر متبادل قرار دیا جاسکتا ہے۔ لیکن اگر سمر اسکول بچوں کو سماجی سرگرمیوں، مختلف کھیلوں، اور بالخصوص ایسے نئے فن و ہنر (مثلاً موسیقی، رقص، آرٹ) سیکھنے کا موقع فراہم کرتا ہے تو ایسے سمر اسکول ضرور جانا چاہیے۔

آرام کرنے کا مقصد یہ نہیں کہ گرمیوں کے لیے کوئی مقصد یا پلان ہی نہ ہو۔ چھٹیوں کے دوران بچوں کے لیے سرگرمیوں کا انتخاب سوچ سمجھ کر کرنا چاہیے۔ ہوم ورک یا اگر انہیں کوئی ہوم ورک نہیں دیا گیا تو اسکول ورک کے لیے وقت کا کچھ حصہ نکالا جانا چاہیے تاکہ بچوں نے گزشتہ تعلیمی سال میں جو پڑھائی کی ہے اس کا علم و فہم پختہ ہو اور اس پر غور و خوض کرسکیں۔ چھٹیوں میں پڑھائی کے لیے مخصوص کیے گئے وقت میں مستقبل کی پڑھائی پر بھی توجہ مرکوز کرنی چاہیے تا کہ بچوں کو اندازہ ہو سکے کہ گرمیوں کے بعد وہ کیا کچھ پڑھنے والے ہیں۔

تاہم بچوں کو تھوڑا بہت اِدھر اُدھر دیکھنے کی بھی اجازت ہونی چاہیے۔ بچوں کو اپنے نصاب سے متعلقہ مواد پڑھنے کے لیے حوصلہ افزائی کی جائے۔ بچوں یہ سوچنے کے لیے بچوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے کہ انہوں نے جو کچھ پڑھا ہے حقیقی زندگی میں اس کی مثالیں کیا ہوسکتی ہیں اور اسے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ ان عوامل سے بچوں نے جو کچھ سیکھا ہے اور جو سیکھنے والے ہیں، اس بارے میں ان کا علم و فہم مزید پختہ اور گہرا ہوگا۔ اس طرح انہیں محض رٹے بازی تک محدود پڑھائی سے کچھ وقت کے لیے وقفہ لینے کا موقع بھی مل جائے گا۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ چھوٹے اور بڑے بچوں کو زیادہ سے زیادہ وقت کی آزادی دینی چاہیے اور ان کی حوصلہ افزائی کی جائے کہ ان کا جو دل چاہتا ہے وہ پڑھیں۔ انہیں ہر قسم کے ناول، بالخصوص کلاسیکی ناول پڑھنے چاہئیں۔ انہیں تاریخ کا مطالعہ کرنا چاہیے، ایسی ڈھیر ساری تاریخ کے موضوع پر کتابیں دستیاب ہیں جو ’بورنگ‘ نہیں ہیں۔ بچوں کے ادب تک رسائی اتنی آسان پہلے کبھی نہیں تھی جتنی آج ہے۔ مگر مطالعے کا درجہ مختلف رکھا جائے۔ بچوں کو اپنے اپنے دلچسپیوں کے اعتبار سے تھوڑا ایڈوانس مواد بھی پڑھنے کے لیے بھی کہا جاسکتا ہے لیکن مواد اتنا زیادہ بھی ایڈوانس نہ ہو کہ بچے کی موضوع میں دلچسپی ماند پڑجائے۔

مجھے ذاتی طور پر مختلف شخصیات کی سوانح پڑھنے کا شوق ہوا کرتا تھا۔ لوگوں کے بارے میں پڑھنا مجھے بہت پسند تھا، انہیں عملی میدان میں دیکھنا، ان کے اندازِ فکر سے روشناس ہونا، ان کی زندگی میں آنے والی مشکلات اور پھر ان کا سامنا کرنے کی صلاحیتوں کے بارے میں جاننا میرے لیے کافی کارآمد ثابت ہوتا تھا۔ چاہے سوانح فلسفیوں کی ہو یا سائنسدانوں کی یا پھر فنکاروں کی ہو، ان کی زندگیوں، جدوجہد، ناکامیوں اور کامیابیوں کے بارے میں پڑھ کر میں خود کو تنہا محسوس نہیں کرتا تھا۔

سوانح بطور ادبی صنف مجھے اب بھی کافی پسند ہے۔ مطالعے کے وقت کا کچھ حصہ عام مضامین کو دیا جائے لیکن بچوں کو زیادہ سے زیادہ انہی مضامین کا مطالعہ کرنا چاہیے جن میں وہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ میرے ایک دوست کو جنگوں کے بارے میں پڑھنا پسند تھا۔ ایک دوسرا دوست صرف تاریخ اسلام میں دلچسپی رکھتا تھا۔ جبکہ ایک دوست کی توجہ سائنس پر مرکوز رہتی۔ پسندیدہ موضوعات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے کے لیے گرمیوں کی چھٹیاں ایک بہترین موقع ہے۔

4 سے 3 دہائیوں پہلے کتابوں کی بہت ہی کم دکانیں ہوا کرتی تھیں جبکہ انٹرنیٹ اور/یا ڈیجیٹل ذرائع کی سہولت میسر نہیں تھی۔ تاہم کتب خانے تھے جہاں تک ہماری رسائی بھی تھی۔ جہاں تک میرا تعلق ہے تو اسکول لائبریری کے علاوہ مجھے برٹش کونسل کی لائبریری اور پنجاب پبلک لائبریری تک بھی رسائی حاصل تھی۔ یہ دونوں لائبریریاں کتب سے بھری ہوتی تھیں۔ دونوں کتب خانوں نے کم عمر افراد کے لیے وسیع جگہ فراہم کی ہوئی تھی، اور یہ کتب خانے میرے اسکول سے کافی نزدیک واقع تھے۔

اگرچہ کتابیں پہلے کے مقابلے میں کافی مہنگی ہوچکی ہیں اور شہروں کے پھیلاؤ اور مہنگی سواریوں کے باعث لائبریری تک رسائی مشکل بن چکی ہے، لیکن مطالعے کا خاصا مواد بذریعہ انٹرنیٹ بڑی آسانی سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔

آن لائن مواد پر تھوڑی بہت نگرانی اور انتخاب کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن آسان دستیابی کم عمر افراد کے لیے کافی فائدہ مند ثات ہوتی ہے کیونکہ اس طرح وہ وسیع پیمانے پر مطالعہ کرسکتے ہیں۔

وقت کے ساتھ تفریح کے دیگر صورتوں میں اضافہ ہوا ہے، اور یوں بچوں کا دھیان بٹھکانے والے ذرائع بھی بڑھ گئے ہیں۔ ٹی وی یا انٹرنیٹ کے استعمال سے منفی اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں۔ مگر یہاں آپ کے لیے پلاننگ اور وقت کی تقسیم مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ بچوں کے پاس کھیل کود کا وقت دستیاب ہونا چاہیے لیکن ایسی دلچسپ سرگرمیوں کے لیے وقت مخصوص کرنا ضروری ہے جن سے ان کی صلاحیتوں میں نکھار بھی لایا جاسکتا ہو۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں مطالعے کے ذریعے زبان کی روانی حاصل کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ انگریزی یا اردو میں مطالعے، بولنے اور لکھنے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے لیے موسم گرما کی چھٹیوں کے علاوہ بھلا کون سا بہتر وقت ثابت ہوسکتا ہے؟

میں یہ بات ایک پھر دہرانا چاہوں گا کہ اگر روزانہ کسی ایک مخصوص زبان میں پڑھنے، سننے، اور لکھنے کو معمول کا حصہ بنا لیا جائے تو دو ماہ کے اندر ہی اس زبان میں روانی کافی بہتر ہوسکتی ہے۔

گرمیوں کی چھٹیاں واقعی ایک بہت ہی خوبصورت خیال ہے۔ خود کو تازہ توانا اور پہلے سے بہتر بنانے کے لیے یہ ایک اچھا وقت ثابت ہوسکتا ہے۔ مگر اس کے لیے وقت کی تقسیم اور پلاننگ درکار ہوتی ہے۔ میری دعا ہے کہ وہ لاکھوں بچے جو رواں ہفتے چھٹیوں پر جانے والے ہیں ان کی یہ چھٹیاں پرمسرت اور سود مند ثابت ہوں۔

یہ مضمون 31 مئی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (1) بند ہیں

NIDA ALI Jun 11, 2019 11:26am
great selection of news and reports.keep it up.kindly add one article on harmful effects of playing PUBG for hours in summer break by our youth.