سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں پر زور دیا ہے کہ وہ اگلی سماعت پر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ سے آگاہ کریں۔ اے ایف پی فوٹو
سپریم کورٹ نے چاروں صوبوں پر زور دیا ہے کہ وہ اگلی سماعت پر بلدیاتی انتخابات کی تاریخ سے آگاہ کریں۔ —. فائل فوٹو اے ایف پی

سپریم کورٹ نے صوبائی حکومت کو ہدایت تو جاری کردی کہ بلدیاتی انتخابات پندرہ ستمبر سے پہلے کرائے جائیں اس ضمن میں عدالت بائیس جوالائی کو تفصیلی فیصلہ بھی جاری کرنے والی ہے۔

عدالت عظمیٰ کی ہدایات کی روشنی میں الیکشن کمیشن  نے صوبائی حکومتوں کو ایک خط لکھا ہے کہ وہ اپنے صوبوں میں بلدیاتی نظام سے متعلق قانون کو یکساں بنائیں۔

بلدیاتی نظام کے حوالے سے کئی ایک قانونی سقم اور طریقہ کار طے نہ ہونے کے ساتھ بعض سیاسی رکاوٹیں بھی ہیں جس کی وجہ سے نہیں لگتا کہ  چاروں صوبوں میںیہ انتخابات  عدالت کی  دی گئی حالیہ تاریخ تک ہو پائیں گے۔

ملک میں بلدیاتی نظام گزشتہ پانچ سال سے لٹکا ہوا ہے کیونکہ صوبائی حکومتیں مشرف کے متعارف کرائے نظام کی جگہ پر نیا بلدیاتی نظام لانے کے لیے قانون سازی کرنے میں ناکام رہی ہیں۔ بلوچستان میں نیا بلدیاتی قانوں رائج کیا گیا ہے مگر اس میں کئی نقائص ہیں۔ پنجاب نے حال ہی میں اس قانون کا مسودہ تیار کیا ہے۔ سندھ میں 1979ء کا قانون بحال کیا گیا گیا۔ لیکن یہ قانون  آئین  سے ٹکراؤمیں ہے۔ اس قانون کے تحت بلدیاتی  انتخابات صوبائی الیکشن اتھارٹی کرائے گی۔

خیبر پختونخوا میں گزشتہ صوبائی حکومت نے قانون سازی کرنے کی کوشش کی تھی ۔ اب تحریک پاکستان کی صوبائی حکومت اس نظام سے متعلق نیا قانون  تیار کر رہی ہے۔

 بلوچستان کے بلدیاتی قانون میں بھی یہ شق شامل ہے۔ جبکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے بعد بلدیاتی انتخابات بھی الیکشن کمیشن آف پاکستان کو منعقد کرانے ہیں۔ سندھ کے سابق ایڈوکیٹ جنرل اور ممتا ز قانون دان یوسف لغاری کا کہنا ہے کہ جب بھی صوبائی اور وفاقی قانون  ایک دوسرے متصادم ہوں ایسی صورت میں وفاقی قانون کو بالادستی حاصل ہوتی ہے۔  یہاں بھی وفاقی قانون کے تحت الیکشن کمیشن کو ہی بلدیاتی انتخابات کرانے ہیں لیکن قانون میں موجود اس سقم کو دور کرنا ضروری ہے۔

 اس صورتحال سے پتہ چلتا ہے کہ بلدیاتی  نظام کیسا ہو اور اس کے انتخابات کیسے ہوں یہ کام صوبائی حکومتوں کا ہے اور انتخابات کرانے کا کام الیکشن کمیشن کا ہے۔

 تعجب کی بات ہے کہ  اٹھارہویں ترمیم جس کے تحت صوبوں کو مالی وسائل اور اختیارات دیئے گئے ہیں اور زیادہ سے زیادہ خود مختاری دینے کا دعویٰ کیا گیا ہے مگر  بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے مرکز کو بیچ میں لایا گیا ہے کہ یہ انتخابات الیکشن کمیشن کرائے گی۔ سندھ کے ماہرین کے مطابق یہ شق صوبوں کے اختیار میں مداخلت کے برابر ہے۔

 یوسف لغاری کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس وقت الیکشن کمیشن  کے پاس الیکشن کے قوانین و ضوابط  قومی ، صوبائی اسمبلیوں اور سینیٹ کے انتخابات کے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے لیے قوانین ضوابط بنانے ہونگے۔ اگر یہ قوانین الیکشن کمیشن بناتی  ہے تو یہ صوبائی خودمختاری کی خلاف ورزی ہوگی۔  صوبائی حکومتوں کو یہ قوانین بنانے میں وقت چاہئیے ہوگا۔

قانون سازی میں وقت اس لیے بھی درکار ہوگا کہ  الیکشن کمیشن نے چاروں صوبوں کو خط لکھ کر کہا ہے کہ وہ بلدیاتی قوانین میں یکسانیت پیدا کریں۔ اس وقت چاروں صوبوں میں یہ قوانین مختلف ہیں۔ یعنی صوبائی اسمبلیوں میں موجود پارٹیاں پہلے قانون سازی کے لیے اتفاق رائے پیدا کریں اور اسکے بعد اس قانون پر چاروں صوبے بھی رضامند ہوں۔

 پیپلز پارٹی کا کہنا ہے کہ اس نے  سندھ میں 1979ء کا قانون تو بحال کیا ہے، مگر اسمبلی میں موجود پارٹیوں سے صلاح مشورہ کیا جا رہا ہے کہ اس میں مزید کیا تبدیلی یا بہتری لائی جاسکتی ہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے لیے چھ ماہ کا وقت بھی مانگا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ الیکشن کمیشن کو خط لکھ کر ووٹ ڈالنے کے لیے ای پولنگ سسٹم کا مطالبہ کیا ہے۔

بلدیاتی انتخابات کے لیے انتخابی فہرستوں کا معاملہ اور حلقہ بندیاں بھی ہونی ہیں۔ اسمبلیوں کی حلقہ بندیاں بڑی تھی اور تعداد میں بھی کم تھی۔ مگر بلدیاتی انتخابات میں حلقے بھی زیادہ ہیں اور ا س کے اسٹیک ہولڈرز بھی زیادہ ہیں۔ ان سب کے اطمینان کی حد تک حلقے بنانا خاصا وقت  اور محنت طلب ہے۔

 گزشتہ عام انتخابات کے موقع پر کراچی اور نوشہروفیروز میں حلقہ بندی کا معاملہ سیاسی کشیدگی کا باعث بنا رہا اور آخر تک  اس پر اطمینان بخش حل نہ نکل سکا۔ یہی صورتحال کراچی میں ووٹروں کا اندراج اور  ان کی تصدیق کے حوالے سے رہی۔

مجوزہ بلدیاتی انتخابات کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ ایک ایسے موقع پر ہو رہے ہیں جب ایم کیو ایم کی قیادت سخت دباؤ میں ہے۔ ایک طرف پارٹی کے سربراہ کو تین مختلف مقدمات کا سامنا ہے تو دوسری طرف اندرونی اختلافات کی بھی باتیں چل رہی ہیں۔

 سیاسی حلقوں میں یہ بھی باتیں کی جارہی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات ہمیشہ آمروں کی ضرورت رہی ہے اور وہ عوام میں اپنی ساکھ اور  حیثیت منانے کے لیے یہ انتخابات کراتے تھے بلکہ انہی انتخابات پر انحصار کرتے تھے۔ موجودہ حکومت اور نظام جمہوری طریقے سے منتخب ہیں ان کو کسی قانونی پوزیشن بنانے کی اس طرح سے ضرورت نہیں۔ ایسے میں ان انتخابات پر اتنا زور کیوں دیا جا رہا ہے؟

الیکشن کمیشن نے چھ اگست کو  صدارتی انتخاب کا شیڈیول دیا تھا۔ مگروفاقی حکومت نے  ماہ رمضان کے آخری عشرے کے پیش نظر  یہ انتخاب ملتوی کرنے کی درخواست کی ہے۔ یہی منطق بلدیاتی انتخابات  پر بھی لاگو ہوسکتی ہے۔ غالب امکان یہی ہے کہ وفاقی  یا کوئی صوبائی حکومت عدالت کی توجہ اس طرف مبذول کرائے گی۔

 بلاشبہ بلدیاتی انتخابات آئینی ضرورت  ہیں، لیکن اس سے زیادہ کئی اور آئینی ضرورتیں بھی ہیں جن کو  ترجیحی  طور پرپورا کرنا ضروری  ہے۔ ملک کو سب سے بڑھ کر دہشتگردی کا سامنا ہے۔ جس میں آئے دن درجوں انسانی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ معاشی طور پر ملک دیوالیہ پن کے دہانے ہے اور توانائی کے بحران نے صنعت و کاروبار کو سخت دھچکا پہنچایا ہے۔ اس بحران کی وجہ سے  عام زندگی بھی متاثر ہورہی ہے۔مہنگائی نے لوگوں کو ایک وقت کی روٹی سے محروم کردیا ہے۔ ایسے میں عدلیہ کی زیادہ توجہ بلدیاتی انتخابات پر جانا سمجھ سے بالاتر ہے۔عام خیال یہ ہے کہ بلدیاتی انتخابات کسی طور پر بھی ان بنیادی تین مسائل کو حل کرنے میں مدد نہیں دیں گے۔البتہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی  ان مسائل سے توجہ ضرورہٹا دیں گے۔

تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ بلدیاتی انتخابات کو ملک میں نئے سیاسی نظام کا پیش خیمہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق یہ انتخابات ستمبر میں ہوں یا چار چھ ماہ بعد یہ ایک ایسا موقع ہوگا جب  ملک کی ایک بڑی پارٹی پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری  صدر مملکت کے عہدے سے  ہی نہیں شاید ملک سے بھی باہر ہونگے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (5) بند ہیں

مانک کینگرانی Jul 20, 2013 05:09pm
سہیل سانگی ملک کہ منجھے ہئے صحافی ہیں جس نے درست لکھا ہے کہ ملک اس وقت دہشتگردی اور دوسرے کیئی مسئلوں گھیرا ہوا ہے جن کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے بلدیاتی الیکشن سے کئی گنا زیادہ ترجیح امن امان اور مختلف کھاتون مین بھرتی کیئے گئے ملازمیں کی تنخا کا ہے بجلی اور دیگر مسائل اہم ہیں (مانک کنگرانی( کی ٹی این
Noor Ahmed Jul 20, 2013 05:29pm
Sohail Sangi a vetran journalist has analysed the situation pertinently. There are other necessary things and obligations than the local elections. How man in the street will be benefited from these things? Common people face so many dragons on the road and price hike and energy crisis can be pointed out as some of them. Poor are getting poorer day by day and rich are getting richer in same way, then what the process will get poor people out of the abyss of poverty?
ذیشان Jul 20, 2013 05:41pm
کیا ملک میں سیاست سیاست کھیلی جاتی رہے گی یا لوگوں کے مسائل بھی حل ہونگے؟ بلدیاتی انتخابات کیا رلیف دینگے؟ یہ مشرف دور میں دیکھ چکے ہیں جب وڈیروں اور چوہدریوں کو ہر ضلع میں ان کی بادشاہت بنا کے دیدی گئی تھی. جہموریت کا تیسرا اسٹیپ وہاں کامیاب ہوتا ہے جہاں پہلے دو یعنی قوم اور صوبائی سطح پر کامیاب ہوتا ہے. ابھی تو بمشکل ایک جمہوری حکومت نے اپنی مدت پوری کی ہے. اس وقت اگر بلدیاتی انتخابات جلدی میں کرائے جاتے ہیں تو نئے سیاسی بروکرز ملکی جمہوریت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں. خطرہ نہیں تو مسئلہ تو ضرور بنیں گے. نئی حکومت کو کچھ عرصہ کام کرنے دیا جائے تو بہتر ہے
مختیار لاشاری Jul 20, 2013 06:34pm
سندھ میں بلدیاتی الیکشن بہت پہلے ہونے چاہیئے تھے مگر اس میں پسند نا پسند کا نیا لوکل گورنمینٹ بل لانے اور کبھی عوامی مطالبے پر ۷۹ع کے بل کو بحال کرنا اور کبھی بھائیوں کے مطالبے پر رد کرنا اس کشمکش میں بہت عرصہ بیت گیا اور دوسرے صوبوں میں پرانے اور نئے بل کا مسئلا نہیں تھا مگر امن امان کا مسئلا بنا کر بلدیاتی الیکشن سے بھاگتے رہے، ابہی سپریم کورٹ جلد از جلد بلدیاتی الیکشن کرانے کا حکم بھی شاید بہت جلدبازی ہے کیونکہ یہ الیکشن بہی الیکشن کمیشن نے کرانے ہیں جس پے جنرل الیکشن نے کافی سوالیہ نشان چھوڑے ہیں انتظامی غفلت، پولنگ عملے اور سامان کا تاخیر سے پہچنا، بیلٹ پیپرز کا کچرے کے ڈھیروں سے ملنا، نتائج کا تاخیر سے ملنا اور مخصوص ایریا سے مخصوص لوگوں کا جیتنا یہ سارے ایسے عوامل ہیں جس پر الیکشن کمیشن کو اپنا ایک ھوم ورک کرنا ہوگا اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو بھی سازگار ماحول بنانا ہوگا، صدارتی انتخاب بھی سر پر ہے حکومت و اپوزیشن اس سلسلے میں مصروف عمل ہوگی، اس لیئے جامع اور صاف شفاف بلدیاتی انتخابات کی تاریخ آگے ہونی چاہیئے .
Arzan Ali Jul 21, 2013 01:47am
Nice one, but I think, if government postpone it on the bases of terrorism and other reasons, this matter will keep hanging the same way as it went awy in the tenure of PPP..