shaik sahab ka tota mufti sahab ki billi 670
شیخ صاحب کے طوطے قرآنی آیات کے حافظ ہیں تو مفتی صاحب کی بلّی نماز ادا کرنا جانتی تھی۔ —. اللسٹریشن: جمیل خان

ظاہر پرستی اور لفظ پرستی کی جو بیماری ہمارے ہاں آج ہر سو ہر جگہ عام دکھائی دیتی ہے، اس وباء کی آمد کا آغاز سعودی عرب سے  70 کی دہائی میں شروع ہوا۔ آج کل وہاں اس ظاہر پرستی نے ایک نیا رنگ اختیار کیا ہے کہ چند برسوں سے پالتو طوطوں کو بھی قرآن کریم کی منتخب آیات زبانی یاد کرائی جارہی ہیں اور یہی نہیں بلکہ انہیں طریقۂ نماز بھی سکھایا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں اس کی ضرورت کیوں محسوس نہیں کی گئی، کیا یہ بھی ایک المیہ ہے!

یا شاید انسانی طوطوں کی بھرمار نے اس کمی کو پورا کر رکھا ہے؟

عرب  ذرائع ابلاغ کے مطابق شوقیہ طوطے پالنے والے سعودی عوام میں یہ رجحان اس قدر شدّت اختیار کرچکا ہے کہ سعودی شہری ایسے طوطے کو پالنا عیب گردانتے ہیں جسے قرآن کی تلاوت یا نماز پڑھنا نہ آتی ہو۔

پالتو پرندوں کو قرآن کریم کی آیات زبانی یاد کرانے اور انہیں نماز سکھانے کے کام سے وابستہ ایک سعودی شہری عبدالرحمان العروان کا کہنا ہے کہ یہ رجحان آٹھ برس قبل شروع ہوا تھا۔ ان کے بقول انہیں اچھی طرح یاد ہے کہ آٹھ برس قبل تک کسی کے ذہن میں  بھی یہ خیال موجود نہیں تھا کہ طوطے کو قرآن یاد کرایا جاسکتا ہے۔ تاہم ایسے وقت میں انہوں نے اس کام کی ابتداء کی تھی۔

معروف سعودی روزنامے ’’الاصوات‘‘ کے مطابق عبدالرحمان العروان کا پرندوں سے تعلق کئی برس پُرانا ہے اور ان کے ذہن میں یہ خیال آٹھ برس قبل اس وقت آیا جب انہوں نے طوطوں کو مختلف گانے اور موسیقی کی دھنیں گاتے سنا۔

عبدالرحمان العروان کے مطا بق، انہوں نے سب سے پہلے مختلف اقسام کے طوطوں پر تجربات کیے اور انہیں اس وقت خوشگوار حیرت کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے زیرتربیت طوطے باآسانی قرآن کریم کی آیات کو یاد کررہے ہیں۔

معروف روزنامے ’’العربیہ‘‘ کے مطابق سعودی عرب میں آج کل  ایسے طوطے بکثرت مل جاتے ہیں، جنہیں قرآن کریم کی آیات زبانی یاد کرائی گئی ہوتی ہیں۔ مذکورہ روزنامے کے مطابق جب بھی کسی سعودی شہری کے ہاتھ میں طوطا موجود ہوتو اس کے آس پاس موجود افراد اس سے سب سے پہلا سوال یہی کرتے ہیں کہ آیا ان کے طوطے کو قرآن کریم کی کچھ آیات زبانی یاد ہیں یا نہیں؟ اگر سوال کا جواب مثبت ہو تو سوال کرنے والا نہایت خوش ہوکر طوطے کو اپنے ہاتھ میں لیتا ہے، لیکن اگر جواب نفی ہو تو پوچھنے والے کے چہرے کے تاثرات سے واضح طور پرپتہ چل جاتا ہے کہ وہ اس جواب سے ناخوش ہے اوراُس کی نگاہ میں طوطے کا مالک نہایت نکما اور کام چور ہے، جو اب تک اپنے طوطے کو قرآن کریم کی چند آیات تک یاد نہیں کراسکا ہے۔

مذکورہ روزنامے کے مطابق ایک عام طوطا مارکیٹ سے باآسانی چند سوریال میں حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن ایسا طوطا جسے قرآن کریم کی ایک آیت بھی زبانی یاد ہو، اس کی کم از کم قیمت دس ہزار ریال ہے جو بڑھ کر بیس اور تیس ہزار ریال تک بھی پہنچ سکتی ہے۔  عبدالرحمان العروان کا کہنا ہے اب تک سب سے زیادہ مہنگے داموں بکنے والے طوطے کی قیمت پچاس ہزار ریال ہے۔

یہ پرندے جوکچھ رٹ کر دوہراتے ہیں، وہ ان کے دماغ میں یا ان کی سوچ میں کسی بھی صورت شامل نہیں ہوسکتا۔ مذہبی ظاہر پرستی کی وباء کے باعث  ہمارے معاشرے میں جس طرز کے طوطے جابجا پھیل گئے ہیں اور جو کچھ وہ رٹ کر دوہراتے رہتے ہیں، ان کی بھی سوچ اور طرز فکر کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔

ہمارے معاشرہ میں شیخ صاحبان کے طوطوں کی سی طرز کی مذہبی وابستگی کے رجحانات میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ ہے کہ مذہبی رجحانات میں اضافہ کے باوجود بھی ایک بااخلاق اور باضمیر معاشرہ کی بنیاد نہیں پڑسکی۔

بلاشبہ معاشرہ میں مذہبی لٹریچر کی مانگ میں پہلے سے کئی گنا اضافہ ہوچکا ہے، یہاں تک کہ مذہبی کتب کے علاوہ مذہبی نوعیت کے کیسٹس اور سی ڈیز کی فروخت بھی اتنی زیادہ ہے کہ کیسٹس اور سی ڈیز کے بعض تاجر محض ان سے ہی زبردست منافع کما لیتے ہیں، لیکن بحیثیت مجموعی خرابی کی جس ڈگر پر معاشرہ چل پڑا ہے کیا اُس میں بھی کسی قسم کی کوئی کمی دیکھنے میں آئی ہے؟

ہمارے بڑے بوڑھے ہمیں بتاتے ہیں کہ آزادی کے بعد ابتدائی چند عشروں کے دوران مساجد میں خال خال لوگ ہی آیا کرتے تھے اور ان میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد زیادہ ہوتی تھی۔آج مسجدیں نوجوان نمازیوں سے بھر جاتی ہیں، گزشتہ سال بھی رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں اعتکاف کرنے والے افراد میں پچھلےایک عشرے سے چل پڑی روایت کی طرح اکثریت نوجوانوں ہی کی تھی، اور جس طرح تیاریاں کی جارہی ہیں، امید ہے کہ اس سال شاید پچھلے سال سے تعداد دُگنی نہیں تو بیس پچیس فیصد تو زیادہ ہی ہوگی۔ ماضی میں سرکاری و غیر سرکاری ملازمتوں میں اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد میں مذہبی میلانات کم ہی دیکھنے کو ملتے تھے، جبکہ آج ایگزیکٹو پوسٹ پر فائز بہت سے افراد پابند صوم و صلوٰۃ، باریش اور معروف شرعی وضع قطع کے حامل ہوچکے ہیں۔

اس کے باوجود بھی ہمارے معاشرہ کی صورتحال یہ ہے کہ یہاں اکثر معاملات میں نہ تو دلیل اور منطق کو تسلیم کیا جاتا ہے اور نہ صحیح اور غلط کا معیار اخلاق و ضمیر کی کسوٹی رہا ہے۔

کیا آپ کو ایسا نہیں لگتا کہ ہمارے معاشرے میں انفرادی مفاد کے لیے ہرقدر پامال کی جاسکتی ہے، ہراصول سے انحراف کیا جاسکتا ہے اور ہرقانون توڑا جاسکتا ہے؟

چند سال قبل ایک معروف مذہبی جماعت کے ’’سرگرم‘‘ لیڈر نے ’’سرد و نرم‘‘ بیان دیا تھا کہ ’’نیک لوگوں کو گنہگاروں سے نفرت نہیں کرنا چاہئے بلکہ اُنہیں محبت کے سلوک سے اپنے قریب لانے کی کوشش کرنی چاہئے۔‘‘

 ابتداء میں تو ہماری سمجھ میں یہ بات نہ آسکی کہ یہ کس قسم کے ’’نیک‘‘ لوگ ہیں جنہیں یہ بات ’’سمجھانی‘‘ پڑ رہی ہے کہ وہ دوسروں سے نفرت نہ کریں، بلکہ محبت سے پیش آئیں۔

گو کہ ہم نے تند و تیز، توتکار اور نیم مہذبانہ گالیوں پر مبنی بیانات کے اس شور و شغب میں اس بیان کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا قرار دیا تھا لیکن ہمارے ذہن میں یہ سوال کلبلا رہا ہے کہ یومِ حشر سے پہلے یہ ترازو کس طرح ایجاد ہوگئی، جس کی بناء پر کچھ لوگ خود کو بزعمِ خود ‘‘نیک’’ سمجھیں اور کہلوائیں؟

 اس لیے کہ بچپن سے تو ہم یہی سنتے اور پڑھتے آئے ہیں کہ نیتوں کا حال اللہ ہی جانتا ہے۔

مذہبی لوگوں کے خشک اور کھردرے رویوں کے حوالے سے ہمارے دوست نون کا کہنا ہے کہ ’’یہ رویے تو خشک اور کھردری سطح سے ارتقائی مرحلے طے کرتے ہوئے شاید اب ایسے ‘‘ریگ مال’’ کی مانند ہوچکے ہیں، جسے لوگوں سے جبراً ٹوائلٹ پیپرز کے بجائے استعمال کروایا جارہا ہے۔‘‘

ہمیں بچپن سے ہی یہ رٹایا گیا کہ ہمارا ملک اس مقدس رات کو وجود میں آیا تھا، جب آسمان سے تجلّیاں نازل ہوتی ہیں اور جبرائیل علیہ السلام شب بیدار مؤمنوں سے مصافحہ کرتے ہیں!

برسوں گزرگئے، سینکڑوں لوگوں سے دریافت کیا کہ آپ ماءشااللہ ہر سال رمضان کی طاق راتوں میں عبادت کرتے ہیں، کیا کبھی تجلّی کا دیدار ہوا....اور کیا آپ سے جبرائیل علیہ السلام نے مصافحہ کیا؟

کچھ نے معنی خیز مسکراہٹ جو ہمیں مکارانہ مسکراہٹ زیادہ معلوم ہورہی تھی کے ساتھ کہا کہ ....میاں اس قسم کے سوالات نہیں کیا کرو....راز کو راز ہی رہنے دو....!

کچھ نے اپنے دل کی حقیقت بلاجھجک بیان کردی اور کہا کہ ....صاحبزادے دعا کرو، ہم اس قابل ہوسکیں.....!

اور کچھ نے کچھ ڈرامائی انداز اختیار کرتے ہوئے تجلی کے نزول اور جبرائیل کے مصافحے کا پورا قصہ ہمارے سامنے بیان کردیا، جبکہ ان کی عملی زندگی کا حال یہ تھا کہ کمینگی کے انتہائی اعلیٰ رتبے پر فائز کرنا بھی ان کے لیے دُرست نہ ہوگا بلکہ خباثت پرستی  کا کوئی نیا ایوارڈ اختراع کرکے ان کو عطا کرنا پڑے گا۔

کیا ایسا نہیں لگتا کہ مذہب سے منسلک کرکے پاکستان کو خدائی معجزہ قراردینے کی حماقت آمیز کوشش اسی طرح ’’گھل مُل یقین‘‘ ہے جیسا کہ مذہب سے متعلق بہت سی روحانی روایتیں، کرامتیں اور کایاکلپ کردینے والے قصّے! جن کا ٹھوس ثبوت آج تک نہیں دیا جاسکتا، ہاں رٹی رٹائی منطق کی چھری اور عذاب جہنم کے خوف سے سوال کرنے والے زِچ ضرور کیا جاسکتا ہے!

رمضان المبارک کا مقدس مہینہ ہماری مملکت خداداد پر سایہ فگن ہے۔ اس مہینے میں یہ فیشن بن گیا ہے کہ ہر آئے گئے سے اسی طرز کے سوال پوچھے جاتے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے؟ یا روزے کیسے جارہے ہیں؟ یا پھر کتنے روزے ہوگئے؟

ایک صاحب نے ہم پر بھی یہ سوال کھینچ مارا، کہ کیا آپ کا روزہ ہے؟

ہم نے جواب دینے کے بجائے، اُلٹا انہی سے سوال کیا کہ کیا آپ کا روزہ ہے؟

فرمانے لگے ....الحمدللہ!

ہم نے ان سے عرض کیا کہ آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے کہ آپ کا روزہ ہے؟

بگڑ کر بولے کیا مطلب؟

ہم نے نہایت تحمل کے ساتھ عرض کیا کہ جناب! ابھی آپ نے فرمایا ہے ناں کہ آپ روزے سے ہیں تو آپ کے پاس اس کا کیا ثبوت ہے؟

کہنے لگے کہ ....یہ کیا بات ہوئی؟

ہم نے پھر اسی طرح انتہائی مسکین صورت بنائے عرض کیا کہ....محترم ! آپ کے پاس اگر کوئی ثبوت ہے تو پیش کیجیے، ہم مان لیں گے کہ آپ کا واقعی روزہ ہے۔

کہنے لگے....میرے گھر چل کر پوچھ لو، گھر والے بتا دیں گے کہ میرا روزہ ہے!

ہم نے کہا....جناب آپ کے گھروالے کیا چوبیس گھنٹے آپ کے ساتھ رہتے ہیں؟

کہنے لگے، نہیں ....!

ہم نے کہا....تو پھر ہم ان کے کہنے پر کیسے مان لیں کہ آپ کا روزہ ہے؟

پھر کیسے مانو گے....؟

 وہ تقریباً چلّاتے ہوئے بولے۔

ہم نے پھر اسی تحمل کے ساتھ عرض کیا:

جناب لگ بھگ پندرہ گھنٹوں کا روزہ ہوتا ہے، ہم تو اس وقت مانیں گے، جب ان پندرہ گھنٹوں میں آپ ہماری نظروں کے سامنے رہیں، یہاں تک کہ واش روم اور باتھ روم میں بھی آپ ہماری نظروں سے اوجھل نہ ہوں....کہ کہیں آپ ہماری نظر سے بچ کر کچھ کھائیں نہیں تو ایک آدھ گھونٹ پانی ہی نہ پی لیں....اور ہاں ہم ایک دن جو آپ کے لیے مختص کریں گے، یقیناً اپنے روزگار سے رخصت لے کر ہی کر سکتے ہیں، اس لیے ہماری ایک دن کی جو بھی ویجز یعنی معاوضہ بنتا ہے، وہ آپ کو دینا پڑے گا۔

ان صاحب کا پارہ چڑھ چکا تھا، چیختے ہوئے بولے....تمہارا دماغ تو خراب نہیں ہے....میں کیوں تمہیں اس طرح دن بھر کے لیے اپنے ساتھ رکھوں گا....اور تمہیں اس کا معاوضہ کیوں دوں....؟

جناب آپ روزہ کس لیے رکھتے ہیں؟

ہم نے سوال کیا۔

اللہ کے لیے....اور یہ بھلا پوچھنے کی بات ہے؟

وہ اسی طرح بگڑتے ہوئے بولے۔

ہم نے نہایت عاجزی کے ساتھ عرض کیا کہ ....محترم! جب آپ روزہ اللہ کے لیے رکھ رہے ہیں تو ہمیں کیوں بتا رہے ہیں کہ آپ کا روزہ ہے....اللہ کو بتائیے ناں....وہی تصدیق کرسکتا ہے....ہماری تصدیق کے لیے تو وہی پروسیجر اپنانا پڑے گا جو ہم نے ابھی بیان  کیا ہے۔

نماز  ہو یا روزہ یہ بندے اور خدا کا معاملہ ہے....آپ نماز ادا کرتے ہیں، آپ کے ظاہری عمل سے قطعہ نظر آپ کے دل میں کیا ہے، یہ میں کیسے جان سکتا ہوں؟

ظاہر ہے کہ ہرگز نہیں!....اور نہ ہی آپ مجھے اپنے دل میں کیا ہے، دکھا سکتے ہیں....!

جب آپ کی نماز، آپ کا روزہ آپ کی دعا اور آپ کی تمام عبادات، آپ کی ہے اور ان عبادات کا معاملہ آپ کے اور خدا کے درمیان ہے تو آپ پھر مجھ غریب پر اس کا رعب کیوں ڈالتے ہیں....مجھے کیا معلوم جب آپ نماز میں ہوتے ہیں تو ہونٹوں پر رٹی ہوئی آیات کے ساتھ ساتھ ذہن میں وہی شیلا کی جوانی والا نغمہ تو نہیں گونج رہا ہوتا ہے؟ جو آپ کے پوتے نے اپنے موبائل فون کی رنگ ٹون کے طور پر سیٹ کر رکھا ہے....اور دن بھر آپ کے گھر میں گونجا کرتا ہے۔

یا پھر آپ چونکہ شریعت کی دال روٹی کھاتے ہیں، اس لیے کہیں آپ کے ذہن میں حیض ونفاس کے مسائل پر بحث تو نہیں جاری رہتی؟

یا پھر آپ جو دن بھر اسٹیٹ ایجنٹ کی شاپ پر محفل جمانے کے ساتھ ساتھ محلے کی خواتین کا نظروں ہی نظروں سے بھرپور جائزہ لیتے رہتے ہیں، کہیں ان کا سراپا تو آپ کے ذہن کی اسکرین پر تو نہیں رقصاں رہتا ہے؟

یا پھر چونکہ آپ کی ساری عبادات کا محور و مرکز حورانِ بہشت کا حصول ہے، اور آپ اکثر ان کا تذکرہ پڑھتے رہتے ہیں تو آپ ان کے تخیل میں محو تو نہیں ہوجاتے؟

اگر نہیں تو پھر اس کا کیا ثبوت ہے کہ ایسا نہیں ہے؟

میں کیسے مان لوں کہ آپ کی عبادت خالصتاً اللہ ہی کے لیے ہے؟

کیا آپ کے ذہن کے تصورات کی اسکرین میں دیکھ سکتا ہوں؟

اگر نہیں تو آپ کی ساری عبادات آپ کو مبارک ہو،اس کی چھری لے کر مجھے ذبح نہ فرمائیے، اس لیے کہ یہ آپ کا اور خدا کا معاملہ ہے....آپ کا اور خدا کے بندوں کا نہیں!

جس ظاہر پرستی کا ہم یہاں نوحہ پڑھ رہے ہیں المیہ یہ ہے کہ وہ شق 63,62 کی صورت میں پاکستان کے آئین کا حصہ بنی ہوئی ہے۔ اس کی رو سے  بھی نیک لوگوں کی  تعریف کچھ اس قسم کی ہے جو صرف اُن نیک لوگوں کے حق میں جاتی ہے جن کی عبادت، مسجد کے باہر قدم رکھتے ہی ختم ہوجاتی ہے اور وہاں سے اُن کی وہ دُنیا شروع ہوجاتی ہے جہاں سب کچھ جائز ہے۔

یہاں ہمیں فارسی کے معروف شاعر حافظ شیرازی کے ہم عصر مفتی عماد فقیہہ یاد آگئے۔ جنہوں نے ایک بلّی پالی ہوئی تھی۔ یہ بلّی مفتی صاحب سے بہت مانوس تھی اور دن رات اُنہی کے ساتھ رہتی تھی۔ مفتی صاحب کو دیکھ دیکھ کر بلّی بھی اُن کی نقل میں رکوع و سجود کی کوشش کرتی اور رفتہ رفتہ اُسے اس کام میں مہارت حاصل ہوتی چلی گئی۔

مفتی عماد فقیہہ نے عوام و خواص میں اس بلّی کو اپنی کرامت کے طور پر پیش کیا اور شریعت کے ساتھ ساتھ طریقت کی سند بھی حاصل کرنے کی کوشش کی۔  مفتی صاحب کے اس عمل پر حافظ شیرازی نے ایک غزل کہی۔ یاد رہے کہ یہ مفتی صاحب بھی حسبِ دستور بادشاہوں کے ہی پروردہ تھے۔

حافظ شیرازی کی غزل جب مشہور ہوئی تو اُس وقت کے حکمران شاہ شجاع کو سخت ناگوار گزری اورحافظ شیرازی کو طرح طرح کے مصائب کا سامنا کرنا پڑا۔

حافظ شیرازی کی اسی غزل کے دو اشعار آپ بھی ملاحظہ کیجیے ؎

اے کبکِ خوشخرام کہ خوش میر دی بناز

غرّہ مشو کہ گربۂ عابد نماز کرد

فردا کہ پیش گاہِ حقیقت شود پدید

شرمندہ رہروے کہ نظر برمجاز کرد

ترجمہ: اے خوش رفتار چکور! جو ناز سے خوش خوش جارہی ہے دھوکہ نہ کھا کہ عبادت گزار کی بلّی نے نماز پڑھی ہے۔ جب حقیقت ظاہر ہوجائے گی تو وہ مسافر شرمندہ ہوگا جس نے مجاز (ظاہر) پر نظر کی ہے۔


Jamil Khan 80   جمیل خان نے لکھنے پڑھنے کو گزشتہ بیس سالوں سے اوڑھنا بچھونا بنایا ہوا ہے، لیکن خود کو قلم کار نہیں کہتے کہ ایک عرصے سے قلم سے لکھنا ترک کرچکے ہیں اور کی بورڈ سے اپنے خیالات کمپیوٹر پر محفوظ کرتے ہیں۔

تبصرے (7) بند ہیں

اشفاق احمد Jul 20, 2013 05:26pm
جناب عالی ایسے طوطے جنہیں قرآن کی آیات زبانی یاد ہوں صرف سعودی عرب میں ہی نہیں بلکہ یہاں پاکستان میں بھی ہیں اور ہر رمضان میں لوگوں کے آگے کھڑےہو کر ۲۰ رکعت نماز میں ایسے طوطے ہونے کا عظیم الشان مطاہرہ کرتے ہیں اور کچھ تو ایسے اعلیٰ نسل کے طوطے ہیں جو شبینہ یا چھ روزہ دس روزہ کے نام پر اپنے تیز حافظے والے طوطے ہونے کا بھی مظاہرہ کرتے ہیں اور ان کی قیمتیں بھی الگ الگ ہیں ستائیس دن والے کی الگ ہے چھ دن والے کی الگ ہے دس دن والے کی الگ ہے ۔ اور سب سے دل چسپ ہیں وہ لوگ جو ان طوطوں کے پیطھے روزانہ کھڑے ہونے کو ثواب جانتے ہیں بھلے یہ نہ جانتے ہوں کہ جو پڑھا جارہا ہے قرآن اس کا کیا مطلب ہے۔
salman Jul 20, 2013 07:18pm
Really enjoyed the logical writing of Jameel Khan Sb.....agree fully with him....If you have written any book(s) kindly refer. I would like to read you. thanks for such a beautiful writing. regards.
Ali Jul 20, 2013 10:45pm
Jamil Khan you say things as they are. I love your writing.
شانزے Jul 20, 2013 11:22pm
بہت شاندار سارا زور سبز لال پیلی اور کالی ، سفید پگیں سر پہ سجا کے خود کو "بظاہر" دوسروں سے اچھا' نیک اور پرہیزگار ثابت کرنے پہ ھے بات کرتے ہیں تو لگتا ھے کہ پگ پہن کے اور چہرے کے بال بڑھا کے انہوں نے اپنی جنت کا سودا پکا کر لیا ھے
nasir Jul 21, 2013 12:12pm
khataa de
Gharib Jul 22, 2013 10:08pm
Mere nazar bhee kuch aisa hai ke is se pehle ke tote ko hum Quran sikhaayen, muslmaanon ko Quran ka matlab sikhaaye aur is se log aslee muslmaan aur achhe insaan ban sakenge warna sirf Quran hifz karne se to muslmaan wahee tote ke tarha hoga jo Quran ke mubaaraka aayat ki to hifz hai magar matlab ki samajh hee nahin.
سعید خان Sep 20, 2013 10:35am
اگر نہیں تو آپ کی ساری عبادات آپ کو مبارک ہو،اس کی چھری لے کر مجھے ذبح نہ فرمائیے، اس لیے کہ یہ آپ کا اور خدا کا معاملہ ہے….آپ کا اور خدا کے بندوں کا نہیں بہت خوب جمیل صاحب