حکومت ذہنی معذور قیدی کی سزائے موت روکے، جے پی پی

اپ ڈیٹ 16 جون 2019
ماہرین کے مطابق ذہنی امراض کا شکار افراد کیے گئے جرائم کے ذمہ دار نہیں — فائل فوٹو/ اے ایف پی
ماہرین کے مطابق ذہنی امراض کا شکار افراد کیے گئے جرائم کے ذمہ دار نہیں — فائل فوٹو/ اے ایف پی

اسلام آباد: انسانی حقوق کی قانونی تنظیم جسٹس پروجیکٹ آف پاکستان (جے پی پی) نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ ذہنی معذور قیدی کی سزائے موت روکنے میں اپنا کردار ادا کرے۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق جے پی پی نے بتایا کہ راولپنڈی کی سیشن عدالت نے ذہنی معذور قیدی کی سزائے موت کے لیے وارنٹ جاری کردیئے ہیں جس کے تحت 36 سالہ غلام عباس کو 18 تاریخ کو پھانسی دے دی جائے گی۔

مزیدپڑھیں: وزیراعظم نے معذور افراد کو صحت کارڈ جاری کرنے کی منظوری دے دی

اس حوالے سے جے پی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا کہ غلام عباس میں ذہنی امراض کی علامات واضح ہیں اس لیے اس کی پھانسی روکی جائے۔

جے پی پی کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر سارہ بلال نے کہا کہ غلام عباس کی سزا ئے موت کالعدم قرار دے کر انہیں ذہنی امراض سے متعلق بحالی مراکز میں منتقل کیا جائے۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ کی جانب مقرر ماہر نفسیات ڈاکٹر ملک حسین نے کہا تھا کہ ’طبی ریکارڈ کے مطابق جیل حکام نے غلام عباس کو ذہنی امراض کی سخت ادویات دیں‘۔

یہ بھی پڑھیں: معذور افراد کوٹہ کیس: کسی کی چوہدراہٹ نہیں چلنے دیں گے، سپریم کورٹ

ڈاکٹر ملک حسین نے سزائے موت کے قیدی غلام عباس کے بارے میں بتایا کہ ان کے اہلخانہ میں معذوری کے امراض پائے جاتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ ضروری ہے کہ مجھے غلام عباس تک رسائی فراہم کی جائے تاکہ ان کی ذہنی اور جسمانی صحت کا اچھی طرح معائنہ کر سکوں۔

ان کا کہنا تھا کہ میری پیشہ ورانہ رائے کے مطابق انہیں راولپنڈی کے مینٹل ہیلتھ سینٹر منتقل کیا جائے تو باقاعدہ علاج ممکن ہوسکے۔

مزیدپڑھیں: شادی معذور افراد کا بھی تو حق ہے

واضح رہے کہ غلام عباس کو پڑوسی کے قتل کے جرم میں 2006 میں پھانسی کی سزا سنائی گئی تھی۔

غلام عباس مجموعی طور پر 13 برس کی جیل کاٹ چکا ہے۔

اس ضمن میں بتایا گیا کہ غلام عباس کی جانب سے سزائے موت کے خلاف صدر مملکت کو معافی کی تازہ درخواست ارسال کی جاچکی ہے۔

خیال رہے کہ رواں برس شائع رپورٹ کے مطابق ملک کی مختلف جیلوں میں سزائے موت کے قیدیوں کی تعداد 4 ہزار 6 سو 88 ہے جن میں صرف پنجاب کی جیلوں میں قید ذہنی مریض قیدیوں کی تعداد ایک سو 88 ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں