سانحہ ساہیوال ٹرائل لاہور منتقل کرنے کا حکم

اپ ڈیٹ 17 جون 2019
محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں پر فردِ جرم بھی اب تک عائد نہیں ہوسکی —فائل فوٹو: اسکرین گریب
محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں پر فردِ جرم بھی اب تک عائد نہیں ہوسکی —فائل فوٹو: اسکرین گریب

لاہور ہائی کورٹ نے سانحہ ساہیوال کا ٹرائل ساہیوال سے لاہور منتقل کرنے کی درخواست منظور کرتے ہوئے کیس کی منتقلی کا حکم دے دیا۔

لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے سانحہ ساہیوال میں جاں بحق ہونے والے محمد خلیل کے بھائی کی کیس منتقل کرنے کی درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار نے اپنی درخواست میں استدعا کی تھی کہ ساہیوال میں کیس کی وجہ سے درخواست گزار سمیت متعدد افراد کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے لہٰذا کیس کو لاہور منتقل کرنے کا حکم دیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر فردِ جرم پھر عائد نہ ہوسکی

کیس منتقلی کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہونے کے باعث انسداد دہشت گردی عدالت میں سانحہ ساہیوال میں ملزم ٹھہرائے گئے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں پر فردِ جرم بھی اب تک عائد نہیں ہوسکی تھی۔

مدعی کی جانب سے کیس کی سماعت ساہیوال سے لاہور منتقل کرنے کی درخواست پر ملزمان پولیس اہلکاروں سمیت تمام فریقین کے وکلا کی جانب سے رضامندی کا اظہار کیا گیا تھا۔

اس سے قبل بھی ملزمان پر فرد جرم عائد کرنے سے متعلق کئی سماعتیں ہوئیں جو عدالتی بائیکاٹ اور ملزمان کے وکلا کی عدم حاضری کی وجہ سے مؤخر ہوگئیں۔

اس سے قبل مدعی محمد جلیل نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہمیں ساہیوال میں اس کیس کی سماعت پر خطرہ ہے اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ کیس لاہور منتقل کردیا جائے‘۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال پہلا مشکوک مقابلہ نہیں، ذمہ داروں کو سزا دینا ہوگی

انہوں نے بتایا تھا کہ گزشتہ 2 ماہ سے انہیں کالز کر کے کیس واپس لینے کے لیے دھمکایا جارہا ہے۔

جس پر انہوں نے کوٹ لکھپت پولیس کے پاس مقدمہ بھی درج کروادیا ہے تا کہ دھمکی آمیز کالز کرنے والوں کا سراغ لگایا جاسکے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اس کالر تک پہنچ گئی ہے لیکن انہیں اس بارے میں اب تک آگاہ نہیں کیا گیا۔

سانحہ ساہیوال پس منظر

واضح رہے کہ 19 جنوری 2018 کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

بعد ازاں واقعے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سانحہ ساہیوال: متاثرہ خاندان کا جے آئی ٹی کی تفتیش پر عدم اطمینان

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں