سانحہ ساہیوال کے ملزمان پر فردِ جرم پھر عائد نہ ہوسکی

اپ ڈیٹ 17 جون 2019
مدعی کے مطابق گزشتہ 2 ماہ سے انہیں کالز کر کے کیس واپس لینے کے لیے دھمکایا جارہا ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز ٹی وی
مدعی کے مطابق گزشتہ 2 ماہ سے انہیں کالز کر کے کیس واپس لینے کے لیے دھمکایا جارہا ہے—فائل فوٹو:ڈان نیوز ٹی وی

ساہیوال: مقامی ا نسدادِ دہشت گردی عدالت (اے ٹی سی) نے سانحہ ساہیوال میں ملزم ٹھہرائے گئے محکمہ انسدادِ دہشت گردی (سی ٹی ڈی) کے 6 اہلکاروں پر فردِ جرم موخر کردی۔

3 مئی کو انسداد دہشت گردی عدالت کے جج کی رخصت کے باعث بھی ملزمان پر فرد جرم عائد نہیں ہوسکی تھی۔

اس سے قبل بھی فرد جرم عائد کرنے سے متعلق کئی سماعتیں ہوچکی ہیں جو عدالتی بائیکاٹ اور ملزمان کے وکلا کی عدم حاضری کی وجہ سے موخر ہوگئیں۔

مدعی محمد جلیل نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمیں ساہیوال میں اس کیس کی سماعت پر خطرہ ہے اس لیے چاہتے ہیں کہ یہ کیس لاہور منتقل کردیا جائے‘۔

یاد رہے کہ سانحہ ساہیوال میں قتل ہونے والے محمد خلیل کے بھائی محمد جلیل نے سی ٹی ڈی کے 6 اہلکاروں کے خلاف یوسف والا پولیس اسٹیشن میں مقدمہ درج کروایا تھا اور اس کیس کو لاہور منتقل کرنے کے لیے ایک درخواست لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سردار محمد شمیم خان کے پاس بھی جمع کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: ملزمان پر فرد جرم عائد نہ ہوسکی، سانحہ ساہیوال کے متاثرین کا احتجاج کا اعلان

اس سے قبل لاہور ہائی کورٹ میں کیس منتقل کرنے کی سماعت 6 مئی کو مقرر کی تھی لیکن چیف جسٹس کی عدم موجودگی کے باعث اسے تبدیل کر کے 16 مئی کردیا گیا تھا جس کی تصدیق مدعی کے وکیل نے بھی کی۔

سماعت کے دوران مدعی کے وکیل نے موقف اختیار کیا کہ چونکہ ان کی کیس منتقلی کی درخواست لاہور ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے لہٰذا ملزمان پر فردِ جرم عائد کرنا مؤخر کیا جائے۔

اس بنا پر انسدادِ دہشت گردی عدالت کے خصوصی جج نعیم نے ساہیوال میں ہونے والی سماعت کی اگلی تاریخ 17 مئی مقرر کردی۔

مدعی جلیل نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ 2 ماہ سے انہیں کالز کر کے کیس واپس لینے کے لیے دھمکایا جارہا ہے۔

جس پر انہوں نے کوٹ لکھپت پولیس کے پاس مقدمہ بھی درج کروادیا ہے تا کہ دھمکی آمیز کالز کرنے والوں کا سراغ لگایا جاسکے ، انہوں نے دعویٰ کیا کہ پولیس اس کالر تک پہنچ گئی ہے لیکن انہیں اس بارے میں اب تک آگاہ نہیں کیا گیا۔

مزید پڑھیں: سانحہ ساہیوال کیلئے جوڈیشل کمیشن بنانے کو تیار ہوں، وزیراعظم

4 مئی کو لاہور کے مال روڈ پر ان کے اہلِ خانہ کے احتجاج کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان شہباز گل نے پہنچ کر ان کے مطالبات پورے کرنے کی یقین دہانی کروائی تھی، یہ مطالبات سی ٹی ڈی کا مقتول خلیل کے خلاف کیس واپس لینا، مدعی کے کیس کا ساہیوال سے لاہور منتقل ہونا تھے، اور اس سلسلے میں شہباز گل نے یقین دہانی بھی کرائی تھی کہ وہ 3 روز بعد ملاقات کریں گے۔

انہوں نے ڈان کو مزید بتایا کہ اب تک انہیں مطالبات کی منظوری کے لیے صوبائی حکومت کی جانب سے کوئی پیش رفت موصول نہیں ہوئی تاہم انہیں امید ہے کہ حکومت کی جانب سے مثبت اقدام دیکھنے کو ملے گا۔

واضح رہے کہ 19 جنوری 2018 کو ساہیوال کے قریب ٹول پلازہ پر سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے 2 خواتین سمیت 4 افراد جاں بحق ہوگئے تھے جس کے بارے میں سی ٹی ڈی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ دہشت گرد تھے، تاہم سی ٹی ڈی کے بدلتے بیانات، واقعے میں زخمی بچوں اور عینی شاہدین کے بیانات سے واقعہ مشکوک ہوگیا تھا۔

بعد ازاں واقعے میں جاں بحق افراد کے لواحقین کے مطالبے پر سی ٹی ڈی کے 16 نامعلوم اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا تھا جبکہ حکومت کی جانب سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) بھی تشکیل دی گئی تھی۔

وزیر قانون پنجاب راجہ بشارت نے پریس کانفرنس میں کہا تھا کہ سی ٹی ڈی کی فائرنگ سے ہلاک ہونے والے ذیشان کے دہشت گردوں سے روابط تھے اور وہ دہشت گرد تنظیم داعش کا حصہ تھا۔

جے آئی ٹی کی ابتدائی رپورٹ سامنے آنے کے بعد واقعے میں ملوث سی ٹی ڈی کے 5 اہلکاروں کے خلاف دفعہ 302 کے تحت چالان اور انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کا فیصلہ کیا گیا تھا، ایڈیشنل آئی جی آپریشن پنجاب اور ایڈیشنل آئی جی سی ٹی ڈی کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا جبکہ ڈی آئی جی سی ٹی ڈی اور ایس پی سی ٹی ڈی کو معطل کردیا گیا تھا۔


یہ خبر 8 مئی 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (1) بند ہیں

Mazari May 08, 2019 03:49pm
qanoon sirf kamzooroon kay liyay hai... police gardi chalti rahay gi...