سوڈان: فوجی حکمران کے خلاف مظاہرے، مزید 11 شہری جاں بحق

02 جولائ 2019
خرطوم میں ہزاروں افراد نے فوجی کونسل کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی
خرطوم میں ہزاروں افراد نے فوجی کونسل کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی

سوڈان میں فوجی حکمران کے خلاف احتجاج کے دوران تصادم اور فائرنگ سے 24 گھنٹوں کے دوران مزید 11 شہری جاں بحق ہوگئے۔

خبرایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سول افراد کے حوالے کرنے کے حق میں مظاہرہ کرنے والے شہریوں اور سیکیورٹی فورسز میں جاری جھڑپوں کے دوران مختلف علاقوں میں کئی شہری زخمی بھی ہوگئے ہیں۔

سوڈان کے دارالحکومت خرطوم اور دیگر شہروں میں 30 جون کو مظاہرین کی بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی تھی اور گزشتہ ماہ حکومت پر قبضہ کرنے والے فوجی حکمرانوں سے دست برداری کا مطالبہ کررہی تھی۔

خرطوم میں ہزاروں افراد نے فوجی کونسل کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی
خرطوم میں ہزاروں افراد نے فوجی کونسل کے خلاف احتجاج کیا—فوٹو:اے ایف پی

سماجی رہنما ناظم سیراج کا کہنا تھا کہ جڑواں شہروں خرطوم اور اومدرمان میں ایک اسکول سے 3 افراد کی لاشیں ملی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تین افراد ہسپتال لے جاتے ہوئے اس وقت جاں بحق ہوئے جب سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے شہریوں پر فائر کھول دیا۔

ناظم سیراج کا کہنا تھا کہ جاں بحق افراد کی مجموعی تعداد 11 ہوگئی جن میں سے ایک زخمی دارالحکومت خرطوم کے ایک ہسپتال میں دم توڑ گیا اس کے علاوہ ایک شہری کی لاش ابطارہ کے علاقے سے ملی جہاں سے گزشتہ دسمبر میں سابق صدر عمرالبشیر کے خلاف احتجاج کا آغاز ہوا تھا۔

سوڈان کے ڈاکٹروں کی تنظیم سوڈانیز پروفیشنلز ایسوسی ایشن نے بھی ہلاکتوں کی تصدیق کی۔

دوسری جانب حکام کا کہنا تھا کہ گزشتہ روز ہونے والے مظاہروں کے دوران کم ازکم 7 افراد مارے گئے اور 200 افراد زخمی ہوئے تھے جن میں سے 27 افراد کو مظاہروں کے دوران گولی لگی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:سوڈان میں فوجی حکمرانی کے خلاف ہزاروں افراد سڑکوں پر نکل آئے

فوجی حکمراں کونسل نے ہلاکتوں کی ذمہ داری مظاہروں کی سرپرستی کرنے والے رہنماؤں پر عائد کی ہے۔

فوجی حکمرانوں کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں—فوٹو:اے ایف پی
فوجی حکمرانوں کے خلاف شہری سراپا احتجاج ہیں—فوٹو:اے ایف پی

فوجی کونسل کے رکن لیفٹیننٹ جنرل غامل عمر کا کہنا تھا کہ یہ قابل افسوس ہے کہ فورسز آزادی اور تبدیلی کے لیے کام کررہی ہے جبکہ مظاہرین صدارتی محل اور ملٹری ہیڈکوارٹرز کی جانب مارچ کررہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال کیا جبکہ انہوں نے پتھراؤ کیا جس کے بعد سیکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے والے افراد کو گرفتار کرلیا ہے۔

لیفٹیننٹ جنرل غامل عمر کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے دوران 3 افراد جاں بحق اور پیراملٹری فورس کے 3 اہلکار زخمی ہوگئے اس کے علاوہ ملک بھر میں درجنوں اہلکار زخمی ہوئے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں:سوڈان میں فوجی بغاوت، صدر عمر البشیر گرفتار

دوسری جانب مظاہرین کا کہنا ہے کہ فوج کونسل کے پاس ایک موقع ہے کہ وہ حکومت چھوڑ کر واپس مورچوں پر چلے جائیں اور یہ سوڈان کے شہریوں کا مطالبہ ہے اور اس وقت تک احتجاج جاری رہے گا جب تک مطالبات مانے نہیں جاتے۔

سوڈان میں ہو کیا رہا ہے؟

11 اپریل کو سوڈان کی فوج نے ملک میں جاری مظاہروں کے باعث 30 سال سے برسر اقتدار صدر عمر البشیر کو برطرف کرکے گرفتار کرلیا تھا اور اقتدار بھی سنبھال لیا تھا۔

وزیر دفاع نے ملک میں 2 سال کے لیے فوجی حکمرانی کا اعلان کرتے ہوئے سول جمہوری تبدیلی کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین کو مشتعل ہونے سے روکنے کے لیے ایمرجنسی بھی نافذ کردی تھی۔

تاہم سوڈان کے وزیر دفاع جنرل عود ابن عوف نے 12 اپریل کو ملٹری کونسل کے سربراہ کے طور پر حلف اٹھایا تھا تاہم وہ اگلے ہی دن عہدے سے دستبردار ہوگئے تھے جس کے بعد 13 اپریل کو جنرل عبدالفتح برہان نے حلف اٹھایا۔

فوج کی جانب سے صدر عمر البشیر کا تختہ الٹنے پر ہزاروں مظاہروں نے دارالحکومت خرطوم کے وسط کی طرف مارچ کیا تھا اور صدر کی برطرفی کی خوشیاں منائی تھیں۔

عود محمد ابن عوف نے کہا تھا کہ فوج، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور سیکیورٹی اداروں کی جانب سے بنائی جانے والی ملٹری کونسل آئندہ 2 سال تک حکومت کرے گی جس کے بعد ’ شفاف اور منصفانہ انتخابات کروائے جائیں گے‘۔

مزید پڑھیں:سوڈان میں احتجاج کے دوران ہلاکتوں کی تعداد پر تضاد

انہوں نے یہ اعلان بھی کیا تھا کہ فوج نے آئین معطل کردیا، حکومت تحلیل کردی اور 3 ماہ کے لیے ایمرجنسی بھی نافد کردی، تاہم صدر عمرالبشیر کی برطرفی کے بعد فوجی نظام سنبھالنے پر بھی مظاہرین نے غم و غصے کا اظہار کیا تھا۔

احتجاج کرنے والے رہنماؤں نے صدر کی برطرفی کے بعد تشکیل دی گئی ملٹری کونسل کو بھی مسترد کردیا تھا۔

مظاہرین نے ملک میں جمہوری نظام کے نفاذ کے لیے سول قیادت اور سوڈان میں جاری تنازعات کے خاتمے کا مطالبہ کیا تھا جن کی وجہ سے ملک بدترین غربت کا شکار ہے۔

تاہم 4 جون کو سیکیورٹی فورسز نے ملٹری ہیڈکوارٹرز کے باہر جمع مظاہرین پر فائر کھول دیئے تھے، جس میں ابتدائی طور پر 30 افراد ہلاک ہوئے۔

بعد ازاں سوڈان کے اپوزیشن رہنماؤں کا کہنا تھا کہ دارالحکومت خرطوم میں دریائے نیل سے 40 لاشیں نکالی گئیں جس کے بعد سیکیورٹی فورسز کے مظاہرین پر حملے میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 100 بتائی گئی۔

تبصرے (0) بند ہیں