کرکٹ ورلڈ کپ 2019ء میں 45 راؤنڈ میچ کھیلے جانے تھے جن میں سے 40 میچ کھیلے جا چکے ہیں مگر سیمی فائنل میں کونسی 4 ٹیمیں مدمقابل ہوں گی، ان میں سے ابھی صرف 2 کا ہی فیصلہ ہوا ہے۔

ٹورنامنٹ کا 41واں میچ آج چیسٹر لی اسٹریٹ میں میزبان انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے مابین کھیلا جائے گا۔ یہ میچ میزبان کی قسمت کا فیصلہ بھی کرنے والا ہے۔ ابتدائی طور پر انگلینڈ کو ورلڈ کپ کے لیے فیورٹ قرار دیا گیا تھا، مگر انگلینڈ کی اب تک کی کار کردگی خاصی غیر تسلی بخش رہی ہے تاہم یہ ٹیم آج کا میچ جیت کر سیمی فائنل میں جگہ بنا کر اپنی ابتدائی ناکامیوں کا ازالہ کرسکتی ہے۔

نیوزی لینڈ کی بات کی جائے تو یہ ٹیم اپنے ابتدائی 6 میچوں میں ناقابلِ شکست رہی تھی، یعنی 5 میں فتح حاصل کی اور ایک میچ بارش کی نذر ہوگیا تھا۔ مگر نیوزی لینڈ کو اپنے 7ویں اور 8ویں میچ میں شکست اٹھانی پڑی، اور انہی شکستوں نے نیوزی لینڈ کے لیے سیمی فائنل تک رسائی کو کسی حد کو مشکل بنا دیا ہے۔

سیمی فائنل کی دوڑ میں شامل تیسری امیدوار پاکستان کرکٹ ٹیم ہے۔ سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے پاکستان کی امیدوں کا مرکز انگلینڈ اور نیوزی لینڈ کے درمیان کھیلا جانے والا آج کا میچ ہے۔

آج اگر نیوزی لینڈ میچ جیت جاتا ہے تو پاکستان کے لیے سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے بس ایک رکاوٹ رہ جائے گی، یعنی بنگلہ دیش، اگر قومی ٹیم اس کو اپنے آخری راؤنڈ میچ میں شکست دے دوچار کردیتی ہے تو پھر اس کو سیمی فائنل میں پہنچنے سے کوئی نہیں روک سکتا، لیکن اگر آج نیوزی لینڈ کے بجائے انگلینڈ فتحیاب ہوتا ہے تو پھر پاکستان کے لیے آگے جانا تقریباً ناممکن ہوجائے گا۔

نیوزی لینڈ کے کھلاڑی بھرپور تیاری کے ساتھ انگلینڈ کے خلاف آج میدان میں اتریں گے—اے ایف پی
نیوزی لینڈ کے کھلاڑی بھرپور تیاری کے ساتھ انگلینڈ کے خلاف آج میدان میں اتریں گے—اے ایف پی

پاکستان کی اس اگر مگر کی صورتحال میں پہنچنے کی وجہ حسبِ روایت ابتدائی مقابلوں میں غیر تسلی بخش کارکردگی تھی۔ پاکستان کو اپنے اولین مقابلے میں ویسٹ انڈیز نے بدترین شکست سے دوچار کیا۔ یہ شکست اتنے بڑے مارجن سے تھی کہ پاکستان کا نیٹ رن ریٹ پستی کی اتھاہ گہرائیوں میں غرق ہوگیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان کے خلاف کامیابی ویسٹ انڈیز کو اس ورلڈ کپ میں حاصل ہونے والی واحد کامیابی ہے۔

انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے بھی منگل کے روز ٹریننگ سیشن میں حصہ لیا—اے ایف پی
انگلینڈ کے کھلاڑیوں نے بھی منگل کے روز ٹریننگ سیشن میں حصہ لیا—اے ایف پی

اپنے ابتدائی میچ ہارنے کے بعد جب پاکستان نے میچ جیتنا شروع کیے تو اسے نیٹ رن ریٹ بہتر کرنے کے مواقع تو ملے لیکن قومی ٹیم ان سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہی۔

پاکستان نے جنوبی افریقہ کے خلاف اپنا میچ 49 رنز سے جیتا۔ اس میچ میں اگر پاکستان بہتر فیلڈنگ کرتا تو وہ یہ میچ شاید 80 یا 90 رنز کے فرق سے جیت کر اپنے رن ریٹ میں کچھ بہتری کرسکتا تھا۔ نیوزی لینڈ کے خلاف میچ میں بھی پاکستان نے مخالف ٹیم کے 5 سرکردہ کھلاڑی 83 رنز پر میدان بدر کرنے کے باوجود ان کو مقررہ 50 اوورز میں 237 رنز کا بڑا مجموعہ حاصل کرنے کا موقع دیا، جو کافی نقصان دہ ثابت ہوا۔

پاکستان کی ٹیم اکثر و بیشتر بین الاقوامی ایونٹس میں ایسی کارکردگی پیش کرتی ہے کہ اس کے مداح ’اگر مگر‘ کے گرداب میں پھنس کر رہ جاتے ہیں جبکہ انہیں پاکستان کے ساتھ ساتھ مخالف ٹیموں کی کارگردگی پر بھی نظر رکھنی پڑ جاتی ہے۔

پاکستان کی یہ ’اگر مگر‘ کی کہانی صرف اس ورلڈ کپ تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ یہ پرانی کہانی ہے۔

1983ء کا ورلڈ کپ

اس کہانی کا آغاز 1983ء کے ورلڈ کپ سے ہوتا ہے۔ اس ورلڈ کپ میں ٹیموں کو 2 گروپ میں تقسیم کیا گیا تھا اور ہر ٹیم کو آپس میں 2، 2 میچ کھیلنا تھے۔ پاکستان کے گروپ میں میزبان انگلینڈ کے علاوہ نیوزی لینڈ اور سری لنکا کی ٹیمیں شامل تھیں۔ پاکستان نے اپنے پہلے 5 پول میچوں میں سے صرف 2 میچ جیتے تھے وہ بھی سری لنکا کے خلاف جبکہ انگلینڈ کے خلاف دونوں اور نیوزی لینڈ کے خلاف ایک میچ میں شکست ہوئی تھی۔

پاکستان کو اپنا آخری گروپ میچ 20 جون کو ناٹنگھم کے مقام پر نیوزی لینڈ کے خلاف کھیلنا تھا۔ اس میچ سے 2 دن قبل پاکستان پر قسمت اس وقت مہربان ہوئی تھی جب سری لنکا نے 18 جون کو ڈربی کے مقام پر نیوزی لینڈ کو ایک غیر متوقع شکست سے دوچار کردیا۔ حُسنِ اتفاق یہ ہے کہ یہ فتح سری لنکا کی اپنے 6 میچوں میں واحد فتح تھی۔ اگر سری لنکا نیوزی لینڈ کو شکست سے دوچار نہ کرتا تو پاکستان اور نیوزی لینڈ کا میچ محض ایک رسمی کارروائی جیسا ہی ہوتا لیکن سری لنکا کو چند روز قبل حاصل ہونے والی فتح نے اس میچ کو بامقصد بنا دیا۔

اب صورتحال یہ تھی کہ انگلینڈ پہلے ہی سیمی فائنل میں پہنچ گیا تھا جبکہ پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین ہونے والا مقابلہ کوارٹر فائنل کا روپ اختیار کرگیا تھا، یعنی جو ٹیم بھی یہ میچ جیتے گی وہ سیمی فائنل تک پہنچے گی۔ یہاں یہ بات بھی یاد رہے کہ 1983ء کے ورلڈ کپ میں جب پاکستان اور نیوزی لینڈ کی ٹیمیں پہلی مرتبہ آمنے سامنے آئی تھیں تب نیوزی لینڈ نے یکطرفہ مقابلے کے بعد پاکستان کو شکست دی تھی۔

اس کارکردگی کے پیش نظر عام خیال یہی پیدا ہوا کہ نیوزی لینڈ ایک مرتبہ پھر پاکستان کو شکست دے دے گا لیکن یہاں پاکستان نے اپنی کارکردگی سے ناقدین کو حیران کردیا۔ اس اہم میچ میں پاکستان نے ظہیر عباس کی سنچری، عمران خان کے 79 رنز اور مدثر نظر و دیگر باؤلروں کی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے نیوزی لینڈ کو ایک بڑے ہی دلچسپ اور سنسنی خیز مقابلے کے بعد 11 رنز سے شکست دی اور تیسرے ورلڈ کپ کے سیمی فائنل میں جگہ بنا لی۔

1992ء کا ورلڈ کپ

پاکستان کی یہ ’اگر مگر‘ کی کہانی 1992ء کے ورلڈ کپ میں بھی خوب چلی۔ اس ٹورنامنٹ میں بھی پاکستان نے ابتدائی میچوں میں غیر تسلی بخش کارکردگی پیش کی۔ ایک موقع پر پاکستان نے 5 میں سے صرف ایک میچ جیتا تھا جبکہ اس کا ایک میچ بارش کی نظر ہوا تھا۔ پاکستان کی سیمی فائنل تک پہنچنے کی امیدیں دم توڑ رہی تھیں۔

1992ء کے ورلڈ کپ میں پابندی کا شکار رہنے والی جنوبی افریقہ کی ٹیم ایک طویل عرصے کے بعد کسی بین الاقوامی ٹورنامنٹ میں شرکت کر رہی تھی اور پاکستان کی خراب کارکردگی سے مایوس میرے جیسے چاہنے والے جنوبی افریقہ کو سپورٹ کرنے کا سوچ رہے تھے کیونکہ ان کی کٹ کا رنگ بھی سبز تھا۔

اردو کا ایک شعر ہے کہ

گرتے ہیں شہسوار ہی میدان جنگ میں،

وہ طفل کیا گرے گا جو گھٹنوں کے بل چلے

یہ شعر پاکستان ٹیم پر صادق آتا ہے جو کچھ زیادہ ہی گرتی ہے۔

پاکستان ٹیم نے 1992ء کے ورلڈ کپ میں اپنی بلندی کے سفر کا آغاز پرتھ کے مقام سے کیا جہاں انہوں نے آسٹریلیا اور سری لنکا کو شکست دے کر عالمی کپ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی امید روشن کرلی تھی. لیکن اس وقت بھی پاکستان کا مستقبل صرف اس کے اپنے ہاتھ میں نہیں تھا بلکہ اس کی سیمی فائنل تک رسائی کا انحصار دیگر مقابلوں کے نتیجوں پر بھی تھا۔

پاکستان کی ٹیم جب اپنا آخری گروپ میچ کھیلنے نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ پہنچی تو اس کو ناصرف یہ میچ لازمی طور پر جیتنا تھا، بلکہ چند گھنٹوں بعد ہونے والے آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان کھیلے جانے والے میچ کے نتیجے کا بھی انتظار کرنا تھا۔

ورلڈ کپ کے اس اہم میچ میں پاکستان نے ٹاس جیت کر پہلے نیوزی لینڈ کو کھیلنے کی دعوت دی اور اپنی شاندار باؤلنگ کی وجہ سے میزبان ٹیم کے تمام کھلاڑیوں کو 166 رنز کے قلیل اسکور پر آؤٹ کردیا۔ پاکستان نے رمیز راجہ کی سنچری کی بدولت یہ ہدف باآسانی 48.2 اوورز میں حاصل کرکے 7 وکٹوں سے میچ جیت لیا۔

اب پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچنے کے لیے میلبرن میں آسٹریلیا اور ویسٹ انڈیز کے درمیان ہونے والے میچ کے نتیجے کا انتظار کرنا تھا اور امید کرنی تھی کہ آسٹریلیا جو پہلے ہی ٹورنامنٹ سے باہر ہوچکا تھا وہ ویسٹ انڈیز کو شکست دے کر پاکستان کی سیمی فائنل میں پہنچنے کی راہ ہموار کردے۔

اس اہم میچ میں آسٹریلیا نے پہلے بلے بازی کرتے ہوئے 216 رنز بنائے، جس کے جواب میں ویسٹ انڈیز کی ٹیم صرف 159 رنز پر ہمت ہار گئی اور یوں قومی ٹیم کی سیمی فائنل میں جگہ پکی ہوگئی۔

معجزاتی طور پر سیمی فائنل میں پہنچنے والی 1983ء کی پاکستانی ٹیم تو اگلے مرحلے تک نہیں پہنچ سکی تھی تاہم ویسے ہی حالات کا مقابلہ کرنے والی 1992ء کی قومی ٹیم نے پہلی مرتبہ ورلڈ کپ کا سیمی فائنل جیت کر فائنل میں جگہ بنائی اور پھر فائنل جیت کر عالمی کرکٹ کی حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجایا۔

ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی پاکستان کی ٹیم ’اگر مگر‘ کے گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہماری اس ’اگر مگر‘ کی کہانی میں کہیں نا کہیں نیوزی لینڈ لازمی موجود رہا ہے۔

1983ء اور 1992ء کے ورلڈ کپ مقابلوں میں ہم کو نیوزی لینڈ کی شکست کے لیے دعائیں کرنی تھیں لیکن اس مرتبہ شائقینِ کرکٹ کی خواہش یہ ہے کہ نیوزی لینڈ اپنی بہترین کارکردگی سے آج کے میچ میں میزبان انگلینڈ کو شکست دے کر ناصرف خود سیمی فائنل میں پہنچ جائے، بلکہ اپنے ساتھ پاکستان کی راہیں بھی ہموار کر دے۔

قومی کرکٹ ٹیم جب بھی کسی بین الاقوامی کرکٹ ٹورنامنٹ کے دوران ’اگر مگر‘ کے اس گرداب میں پھنستی ہے تو اس صورتحال میں ان کے مداحوں کے جذبات میں تلاطم پیدا ہوجاتا ہے۔ میں امید کرتا ہوں کہ پاکستانی ٹیم مستقبل میں کرکٹ کے عالمی مقابلوں میں ابتدا سے ہی اپنی صلاحیتوں کا بھرپور مظاہرہ کرے گی تاکہ خود ٹیم اور ان کے مداح کسی بھی اگر اور مگر کی صورتحال کی وجہ سے ذہنی تناؤ کا شکار ہونے سے بچے رہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں