’پاکستان مخالف صحافیوں کو گرفتار کرو‘، ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ

04 جولائ 2019
کئی ٹوئٹر صارفین نے صحافیوں کے ساتھ اس ہیش ٹیگ کو استعمال کیا — فائل فوٹو/اے ایف پی
کئی ٹوئٹر صارفین نے صحافیوں کے ساتھ اس ہیش ٹیگ کو استعمال کیا — فائل فوٹو/اے ایف پی

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر پاکستان میں صحافیوں کو گرفتار کرنے کے حوالے سے ہیش ٹیگ ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق ہیش ٹیگ ’ArrestAntiPakjournalists#‘ شام کو پاکستان میں ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ میں رہا جسے 28 ہزار بار استعمال کیا گیا تھا۔

کئی ٹوئٹر صارفین نے نامور صحافیوں اور ٹی وی اینکرز، جو وزیر اعظم عمران خان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کرتے رہتے ہیں، کی تصاویر کے ساتھ اس ہیش ٹیگ کا استعمال کیا۔

مزید پڑھیں: 'آصف علی زرداری کا انٹرویو نشر ہونے سے روک دیا گیا'

ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’یہی وہ لوگ ہیں جو ملک میں افراتفری، انتشار اور فسادات کے ذمہ دار ہیں، یہی ریاست کے اصل دشمن ہیں‘۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ پر تنقید میڈیا کے لیے ریڈ لائن تصور کی جاتی ہے جسے عبور کرنے پر صحافی اور بلاگرز اغوا، تشدد یہاں تک کہ قتل کی شکایات کرتے رہے ہیں۔

گزشتہ سال صحافیوں کے تحفظ کی کمیٹی (سی پی جے) نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا کہ ’فوج نے خاموش مگر موثر انداز میں صحافت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں، تاہم فوج اس کی تردید کرتی ہے‘۔

ڈیجیٹل رائٹس گروپ 'بائٹس فار آل' کے شہزاد احمد کا کہنا تھا کہ ’یہ ہیش ٹیگ، پی ٹی آئی کے حمایتی اکاؤنٹس کی سازش لگتی ہے جو عام عوام کی رائے نہیں ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: یوم آزادی صحافت اور بے سہارا صحافی

انہوں نے 'اے ایف پی' سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’یہ منظم گروہ ہے جو ٹوئٹر پر ٹرینڈز کا آغاز کرتا ہے اور یہ ملک میں آزادی اظہار رائے اور ذاتی آزادی کے لیے نہایت خطرناک رجحان ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سوشل میڈیا کا ذمہ دارانہ طور پر استعمال ہمارے ملک میں مشکل ترین ہوتا جارہا ہے، ہم اب سوشل میڈیا کا استعمال دوسروں کو گالیاں دینے، جھوٹی خبریں پھیلانے اور ایک دوسرے کی عزت اچھالنے کے لیے کرتے ہیں جو بالکل غلط ہے‘۔

ٹوئٹر پر اس ہیش ٹیگ میں سب سے زیادہ صحافی حامد میر کی تصویر شیئر کی گئی۔

خیال رہے کہ حامد میر 2014 میں ان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کے بعد بین الاقوامی سطح پر خبروں کا حصہ بنے تھے۔

حملے میں انہیں متعدد گولیاں لگی تھیں، تاہم ان کی زندگی بچ گئی۔

انہوں نے اس حملے کا الزام ملک کے اہم ترین خفیہ ادارے پر عائد کیا تھا۔

2 روز قبل انہوں نے سابق صدر اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے انٹرویو کو میڈیا پر چلنے سے روکنے پر ٹوئٹر پر میڈیا میں سینسر شپ کے بڑھنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اس کے خلاف مہم کا آغاز کیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم آزاد ملک میں نہیں رہتے ہیں‘۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں