کرکٹ کی 12ویں ’عالمی جنگ‘ میں پاکستان کا سفر تمام ہوا، یعنی 1992ء کی مماثلتیں 2019ء میں ڈھونڈنے کے سلسلے کا بھی انت ہوگیا۔

شمار کیجیے، 1992ء تا 2019ء کُل27 برس ہیں یعنی 92ء لگ بھگ 3 عشرے پرانا قصہ ہے، اور اس وقت آنکھ کھولنے والے آج بچپن کی دہلیز پھیلانگ چکے ہیں، لیکن ہم اُن ’بچوں‘ میں سے ہیں جنہیں 1992ء بہت اچھی طرح نہ سہی لیکن کافی حد تک یاد ہے۔

پھر 92ء فقط پاکستان کی ورلڈکپ میں فتح کا ہی سال تو نہیں تھا بلکہ یہ 20ویں صدی کی آخری دہائی کا وہ برس تھا جب شاید ’حال‘ بہت دھیرے دھیرے سِرک کر ماضی میں قید ہوتا تھا۔

اگرچہ یہ 1992ء شہرِ قائد میں امن وامان کے لیے زیادہ اچھا ثابت نہ ہوا، تاہم 1992ء اور آج 2019ء میں بہت سی منطقی اور غیر منطقی مماثلتیں پیش کی جاتی ہیں، لیکن 2019ء ہمیں تو کسی بھی طرح 1992ء جیسا نہیں لگتا ہے۔ ذرا مُڑ کر دیکھیے تو آخر آج ہے ہی کیا، جو اُس جیسا ہے؟ شاید کچھ بھی تو نہیں۔

ہمارا 1992ء تو کراچی کے پرانے ریس کورس کی جنوبی دیوار سے لگی ہوئی ایک چھوٹی سی بستی میں گزرا، اسی ریس کورس کی دیوار پر ہماری گلی بھی بند ہو جاتی تھی۔وسیع وعریض ریس کورس کی ویرانی ہمارے لیے بہت پُراسراریت سمیٹے ہوئی تھی، بالخصوص رات کے وقت ریس کورس کے قریبی گلیوں میں چمگادڑوں کا راج ہوتا، بلب روشن ہونے کے باوجود وہاں سے گزرتے ہوئے ایک خوف سا آتا جبکہ دن میں یہاں بے شمار گلہریاں دکھائی دیتیں۔ انہی شانت گلیوں میں ہی کہیں ہمارا 1992ء گُم ہوا اور ہم زندگی کے پیچھے دوڑتے ہوئے 2019ء تک آگئے۔

1992ء ہی وہ برس تھا جب ہمارا داخلہ محلے کے ایک اسکول میں ہوا، اس لیے کوئی اور یاد نہ بھی کرتا، تب بھی 1992ء ہماری زندگی میں اَن مٹ تھا!

وہ 92ء جب پرانے وقتوں کے ڈیوڑھیوں، انگنائیوں اور روشن دانوں والے، بہت سے گھر باقی تھے، آج ان کی جگہ کثیر المنزلہ عمارتوں میں ’مقید‘ گھر ہیں، جہاں دن کی روشنی بھی ذرا کم ہی ٹھہرتی ہے۔ تب بہت سے پیڑ بھی محلے کے ساجھے دار ہوا کرتے تھے، ہماری گلی کے نکڑ کے گھر میں بھی بادام کا پیڑ تھا، جہاں ہر صبح اور شام ڈھلے چڑیاں کتنا شور کرتی تھیں، آج تو کچھ بھی اُس جیسا نہیں!

اور وہ گرمیاں جب دوپہر کو وقت بھی سُستاتا تھا، سہ پہر کے بعد جب مغرب کی سمت ایستادہ عمارتیں تیز دھوپ میں جھلستی گلیوں کو چھاؤں دینے لگتیں، تب بہت سے بچے گلیوں میں نکل آتے کرکٹ، پٹھو واری، اور جانے کون کون سے کھیل کھیلتے اور سورج ڈھلنے تک گلیوں میں ایک میلہ سا لگا رہتا۔ ہر چند کے ہمیں صبح سے شام تک کھیلنے کا کوئی وقت نہ ملتا تھا لیکن وہ جو ہر جمعرات کی رات کو مسرت ملتی تھی کہ کل پورا دن چھٹی ہے، اُس کا تصور ہی محال ہے، پھر دیگر چھٹیوں اور عید، بقرعید یا 14 اگست کی خوشیوں کی خوشی کا تو پوچھیے ہی نا، کیا آج کے بچوں کے ہی سہی، روزوشب ایسے ہیں؟

ہمیں تو 1992ء کے زمانے کے وہ جاڑے نہیں بھولتے، جب سرد اور خشک ہوائیں زوروں پر ہوتیں تب سناٹے میں ’کینٹ اسٹیشن‘ پر آتی جاتی ریلوں کے تیز ہارن ہمارے گھروں تک صاف سنائی دیتے اور فضا میں ایک اَن جانی سی افسردگی بکھر کر رہ جاتی۔

اور وہ ساون کی دوپہریں، جب مینہ خوب ٹوٹ کے برستا اور پھر شاید برس برس کے تھک سا جاتا۔ بادلوں کی زور دار گھن گرج کے بعد برسات کا شور جب ختم ہو جاتا اور پرنالوں سے بہتے پانی کی ٹِپ ٹِپ بھی تھمنے لگتی۔

محلے بھر کے بچے بھی برسات میں خوب اچھل کود کے بعد دَم لینے کو گھروں میں دَبک جاتے اور گہرے ابر سے سہ پہر ہی سے شام ڈھلنے کا گماں ہونے لگتا، سارے پرندے بھی اپنے ٹھکانوں میں چُپکے ہو بیٹھتے، تب ساری فضا میں ایک خاموشی کس قدر صاف ’سُنائی‘ دیتی اور ایسے میں خنک ساحلی ہوا کی دھیمی دھیمی سی سرگوشی، جو پانی میں ڈوبی ہوئی زمین اور خوب بھیگے ہوئے در ودیواروں سے مل کر ایک عجیب سی فضا بنا دیتی تھی۔ ہمیں تو ایسا ماحول اب کہیں دکھائی نہیں دیتا؟

نہ اب 1992ء کی طرح جمعے کی چھٹی ہے اور نہ جمعے کے روز ربڑی ملائی والے کی گرج دار آواز، نہ وہ چاندنیاں، پردے اور زنانہ ملبوسات بیچنے والا جس کی آواز ہماری دوپہروں میں سماں باندھ دیتی تھی۔

اب وہ شام کو سائیکل پر رنگ چھوڑتی قلفی والے کی گھنٹی کی ٹن ٹن بھی سنائی نہیں دیتی۔ نہ شام کی چائے کی مہک کے ساتھ گلی میں باقر خانی والے کی آواز ’چیز‘ کے لوازمات پورے کرتی ہے، بلکہ آج وہ باقر خانی والا ہی نہیں بلکہ ’باقر خانی‘ ہی کہیں کھو کر رہ گئی ہے۔ وہ ’کباب مسالے‘ کی بڑی ’ے‘ کو پورے سانس تک کھینچ کر آواز لگا کر ’لونگ چڑے‘ لانے والا بھی وقت کی تیز رفتاری کی نذر ہو چکا ہے۔

یہی نہیں قلعی گروں کی صدائیں ہیں، نہ اب ’سل بٹا‘ بنانے والے آتے ہیں۔ نہ پرانی جوتی لے کر مٹی کے کھلونے دینے کوئی آتا ہے اور نہ کاندھے پر ’گولر‘ لاد کر آنے والوں کا کوئی سراغ ہے البتہ ’گلاس برنی‘ والا کبھی بھولا بھٹکا آن پہنچتا ہے اور وہ پاپڑ والا جو ایک ہی سانس میں دسیوں بار 'پپڑ، پپڑ، پپڑ، پپڑ، پپڑ...' کرکے آواز لگاتا تھا، اُسے کون بھول سکتا ہے۔ کیا اس سب کے بغیر بھی بھلا کوئی برس 1992ء ہو سکتا ہے۔

اور وہ ہر ہفتے اماں (نانی) کے ہاں جانے کا اہتمام کہاں فراموش ہوتا ہے، تب ہمارے مَن پہ اپنے نانا کی موت کا گھاؤ تازہ تازہ تھا جبکہ آج شاید دل پر کوئی جگہ ہی زخم سے خالی ہو۔

1992ء میں ہماری حساس طبیعت نے ایک ہجر ’رتن تلاؤ‘ میں نانی کا پرانا گھر چھوڑنا بہت محسوس کیا تھا۔ ہمیں نانی کے نئے اور بڑے گھر سے کہیں زیادہ حسین و پُرکشش وہ پرانا اور تنگ گھر لگتا، ہم اسے ہی یاد کرتے رہتے۔ ہمیں وہاں کم سنی میں گزارے نادانیوں کے وہ کچھ دن آج بھی اپنی ساری زندگی پر حاوی لگتے ہیں۔ یہ تھا 1992ء، آج تو ہماری ’اماں‘ (نانی) کو ہی رخصت ہوئے عرصہ بیت چکا ہے!

مختصر یہ کہ کہیں بھی تو 1992ء نہیں، وہ لوگ وہ زمانہ نہیں۔ وہ زندگی اور وہ رنگ نہیں، دنیا بہت تیزی سے تبدیل ہوچکی ہے اور ابھی پتا نہیں کیا کچھ مزید اتھل پتھل ہونا ہے۔

’ثبات ایک تغیر زمانے کو ہے!‘ وقت ہمیشہ تبدیل ہوا ہے۔ اگر ہم اس بات سے استدلال کریں کہ تاریخ خود کو دُہراتی ہے، تو دوسری طرف یہ سچائی کیسے نظرانداز کی جا سکتی ہے کہ گیا وقت کبھی لوٹ کر نہیں آتا۔

ذرا گھڑی کی ٹِک ٹِک پر غور کریں، یہ وقت گزرنے کی نہیں لمحے ’بچھڑنے‘ کا گریہ محسوس ہوگی، یہ جو جلدی جلدی گھڑی کے ہندسے بدل رہے ہیں، یہ سمے ہی تو ہے، جو بند مٹھی میں ریت کی موافق پھسلا جا رہا ہے، یہ عمر ہی تو ہے جو ختم ہو رہی ہے، یہ دنیا ہی تو ہے جو کبھی رُکی ہے اور نہ رُکے گی۔ اس لیے 1992ء کی اچھی بُری یادوں میں ضرور رہیے، لیکن یہ مان لیجیے یہ 2019ء ہے، اس میں کہیں بھی دُور دُور تک 1992ء کی پرچھائیں نہیں!

تبصرے (4) بند ہیں

farooq Jul 08, 2019 01:15pm
khubsurat
عمیر جمیل احمد Jul 08, 2019 03:39pm
سب بدل گیا ۔۔۔۔۔کاش کہ وقت واپس ہو سکتا ۔۔۔کونسے کونسے تار چھیڑ دیۓ حضرت آج آپ نے۔۔۔۔ nostalgia kills painfully.......uff
umair Jul 09, 2019 10:02am
article is awesome.
رضوان طاہر مبین Jul 16, 2019 08:13pm
@عمیر جمیل احمد شکریہ