دوحہ: امریکا طالبان مذاکرات کے بعد انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2019
طالبان کے ساتھ افغان وفود کے مذاکرات دوحہ میں ہورہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
طالبان کے ساتھ افغان وفود کے مذاکرات دوحہ میں ہورہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی

قطر کے دارالحکومت دوحہ میں افغانستان میں 18 سال سے جاری جنگ کے خاتمے کے لیے امریکا-طالبان مذاکرات کے بعد افغان حکومت، سول سوسائٹی اور دیگر وفود کے بھی طالبان سے مذاکرات ہورہے ہیں۔

خبر ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق افغان اور طالبان نمائندوں کے اجلاس میں 70 افراد شامل ہیں جن کی ملاقات کے لیے لگژری ہوٹل کی سیکیورٹی سخت کردی گئی ہے۔

کانفرنس روم میں داخل ہونے سے قبل تمام افراد کو اپنے موبائل فون انتظامیہ کے حوالے کرنا پڑا۔

خیال رہے کہ واشنگٹن واضح کر چکا ہے کہ وہ ستمبر میں افغانستان کے صدارتی انتخاب سے قبل طالبان کے ساتھ سیاسی معاہدہ کرنا چاہتا ہے جس کے بعد غیر ملکی افواج بھی واپس لوٹ جائیں گی۔

مزید پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان اور حکومتی وفود ماسکو میں ملاقات کریں گے

مذاکرات کے حوالے سے جرمنی کے نمائندہ خصوصی برائے افغانستان اور پاکستان مارکس پوٹزل کا کہنا تھا کہ آج یہاں کچھ روشن خیال ذہن موجود ہیں جو افغان معاشرے کے ایک حصے کی نمائندگی کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ سب کے پاس پر تشدد کشیدگی کو ایک پر امن مباحثے میں بدلنے کے طریقے تلاش کرنے کا ایک منفرد موقع اور ذمہ داری ہے'۔

طالبان کے نمائندے عباس استنکزئی نے جب کانفرنس میں شامل ہونے کے لیے کانفرنس روم میں داخل ہونے کی کوشش کی تو اس دوران ان کی سیکیورٹی گارڈ سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

عباس استنکزئی کا کہنا تھا کہ ’ہم مذاکرات میں شامل ہونے کے لیے جارہے ہیں لیکن وہ ہمیں جانے نہیں دے رہے جس پر ایک افسر نے کہا کہ ’ہم آپ سے مذاق نہیں کر رہے ہیں اور ہم پر چلّانا بند کریں'۔

تاہم عباس استنکزئی، طالبان کے دوحہ آفس کے ترجمان سہیل شاہین سمیت وفد کے ہمراہ مذاکرات سے قبل کانفرنس روم میں اپنی نشستوں پر پہنچنے میں کامیاب ہوئے۔

’ خواتین کو کام کرنے کی اجازت دی جائے‘

قطری وزات خارجہ کے نمائندہ برائے انسداد دہشت گردی مطلق القحطانی نے کہا کہ ہم تمام افغان بھائیوں اور بہنوں کی دوحہ میں ملاقات پر بہت خوش ہیں۔

افغان اور طالبان وفود کو ثالثوں کی موجودگی میں مذاکرات کے لیے تنہا چھوڑنے کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم افغانستان کے مستقبل کی راہ کا تعین کرناچاہتے ہیں'۔

واضح رہے کہ یہ مذاکرات امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کے 6 دن بعد ہورہے ہیں جن میں مذکورہ کانفرنس کی وجہ سے 2 دن کا وقفہ دیا گیا ہے تھا جو دو روز بعد دوبارہ شروع ہوں گے۔

سابق صدر حامد کرزئی کی جانب سے طالبان کے ساتھ بات چیت کےلیے تشکیل دی گئی اعلیٰ امن کونسل کی رکن اصیلہ وردک نے اے ایف پی کو بتایا کہ ہر کوئی جنگ بندی پر غور کررہا ہے۔

اصیلہ وردک نے مزید کہا کہ عباس استنکزئی نے ’خواتین کے کردار، معاشی ترقی اور اقلیتوں کے کردار پر طالبان کے موقف سے متعلق بات چیت کی‘۔

یہ بھی پڑھیں: افغان امن عمل: طالبان وفد کے چینی حکام سے مذاکرات

انہوں نے کہا کہ وہ افغان ثقافت اور اسلامی اقدار کی بنیاد پر خواتین کو کام کرنے، اسکول جانے اور پڑھنے کی اجازت دیں گے۔

امریکی نمائندہ خصوصی برائے امن عمل زلمے خلیل زاد نے کہا کہ امریکا-طالبان مذاکرات کا حالیہ دور گزشتہ تمام مرحلوں کے مقابلے میں سب زیادہ تعمیری رہا۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، غیرملکی افواج کے انخلا، انٹرا افغان مذاکرات اور جنگ بندی پر مذاکرات اور بات چیت ہوئی تھی۔

قطر میں موجود طالبان کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس پیش رفت سے خوش ہیں اور انہیں اب تک کسی قسم کی رکاوٹوں کا سامنا نہیں ہوا۔

دوحہ میں جاری ان مذاکرات میں سیاسی رہنماؤں اور دیگر افغان اسٹیک ہولڈرز شریک ہیں جن میں کم از کم 6 خواتین بھی شامل ہیں۔

امریکا اس دو روزہ اجلاس میں براہ راست شرکت نہیں کررہا لیکن زلمے خلیل زاد نے کانفرنس روم کا دورہ ضرور کیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ’ اس کا مقصد ان کے درمیان امن کی شرائط پر متفق ہونے کے لیے مذاکرات کرنا ہے'۔

خیال رہے کہ اس سے قبل بھی فروری اور مئی میں افغانستان کے حکومتی نمائندے اور طالبان وفود کے درمیان مذاکرات ہوچکے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں