بچپن کے دنوں میں میرے کچھ ایسے بھی دوست تھے جو رات کو والدین سے چھپ کر بستر میں کتابوں کا مطالعہ کیا کرتے تھے، حالانکہ ان کتابوں کا مواد بھی ذرا بھی غیر مناسب نہیں تھا بلکہ یہ کتابیں اسکول کی لائبریری سے حاصل کی جاتیں تھیں جن کے موضوعات مرکزی دھارے کے ادب سے متعلق ہوتے۔ آج میں سوچتی ہوں کہ آخر والدین کیونکر بچوں کو مطالعے جیسے اچھے کام سے روکا کرتے تھے۔

گرمیوں کی چھٹیوں میں جب زیادہ تر بچوں کو معمول کی مصروفیت سے وقفہ مل جاتا ہے اور اس دوران انہیں مطالعے کے لیے کافی فارغ وقت مل سکتا ہے، اس عادت کو پیدا کرنے کا یہی اچھا وقت ثابت ہوسکتا ہے۔

کئی گھرانوں میں مخصوص سماجی سوچ موجود ہوتی ہے جس کے باعث وہ اپنے بچوں کو بہتر سے بہتر تعلیم تو دلوانا چاہتے ہیں، اور بعدازاں وہ افراد بڑی خوشی کے ساتھ اپنے بچے کی اسکول میں شاندار کارکردگی کا تذکرہ بھی کرتے دکھائی دیں گے مگر ساتھ ہی ساتھ وہ یہ بھی چاہیں گے کہ بچے کے ذہن اور تجسس کا دائرہ محدود ہی رہے۔

ایسا کیوں ہے کہ ہمارے بچے اسکول میں تو بہت ہی شاندار نتائج حاصل کرتے ہیں لیکن کسی قسم کے مباحثے میں تعمیری حیثیت میں حصہ لینے کے قابل نہیں ہوتے؟ ان میں سے کئی بچے اپنے اساتذہ، والدین، گھروالوں اور دوستوں کے آگے بولنے سے اتنا گھبراتے کیوں ہیں؟ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم اپنے بچے کو ہر قسم کا ادب پڑھنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہمیں ان کے مطالعے کے دائرے پر اپنا ضابطہ قائم رکھنا پسند ہے کیونکہ ہم ڈرتے ہیں کہ کہیں وہ ایسی ویسی چیز نہ پڑھ لیں کہ جس سے آگے چل کر وہ سماجی رکاوٹوں کو عبور کرنے لگیں اور اپنی رائے کا کھل کر اظہار کریں۔

مطالعے کا اپنا ہی لطف ہے اور یہ ذہنی صحت کے لیے اسی طرح اہم ہے جس طرح جسم کے لیے خوراک اور غذائیت۔ ہماری زندگی میں شاید ہی ایسی کوئی چیز ہو جو بستر میں ایک اچھی کتاب کے مطالعے سے ملنے والے طمانیت کے احساس کا متبادل ہوسکے۔ ویسے آج کل لوگوں کی ایک بڑی تعداد ای-بکس کا مطالعہ تو کرتی ہے لیکن آج بھی ہمیں 'حقیقی' کتابوں کی اہمیت ہر جگہ واضح طور پر نظر آتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ 90 فیصد ای بک مالکان کا کہنا ہے کہ وہ ای بکس کے مطالعے سے زیادہ پیپر بیک ہی پڑھتے ہیں۔ بریکلے کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق جن بچوں کو جتنا جلدی کتابوں سے متعارف کروایا گیا، یا جنہیں ایک سے تین برس کی عمر میں والدین نے کتاب پڑھ کر سنائی، انہوں نے زندگی میں آگے چل کر ذہانت کے امتحانوں میں بہت زیادہ نمبر حاصل کیے۔

بچے ٹی وی دیکھنے سے زیادہ کتابوں سے نئے الفاظ سیکھتے ہیں۔ کتابوں میں چھپی تصاویر ان پر علمی دنیا کے دروازے کھولتی ہیں، تجسس کو جنم دیتی ہیں، ذہن کو مختلف زاویوں سے سوچنے پر مجبور کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ اس انداز میں گفتگو کرتی ہیں کہ جو ان کے سوچنے کے عمل، شناخت، زندگی میں ان کے مقام اور کردار میں گہرائی کے ساتھ پیوست ہوجاتی ہے۔

تو پھر ہم کیوں اپنے بچوں کو کتاب پڑھ کر سنانے کی عادت اتنی دیر سے اختیار کرتے ہیں؟ بطور ایک استاد میں ایسے سیکڑوں والدین سے مل چکی ہوں جو اکثر یہ شکایت کرتے ہیں کہ ان کے بچے کو مطالعے کا شوق نہیں ہے اور وہ ایک کتاب بھی ختم نہیں کرپاتا۔ یہ سن کر میں ان سے پوچھتی ہوں کہ انہوں نے اپنے بچے کا پہلی بار کتاب سے تعارف کب کروایا؟ اس پر اکثر یہ جواب ملتا ہے کہ جب بچے نے اسکول جانا شروع کیا۔

یہی وجہ ہے کہ بچوں کی کتاب سے وابستگی کی وجہ بالکل ہی مختلف ہوجاتی ہے، دراصل ایسے بچے کتاب کو اسکول کے تعلیمی دباؤ اور سخت محنت سے وابستہ کردیتے ہیں، جبکہ وہ بچے جن کے والدین ان کی پیدائش کے بعد سے کہانیاں پڑھ کر سناتے ہیں، وہ کتابوں کو والدین کے ساتھ گہرے رشتے، گھروالوں کے ساتھ گزرے وقت کی یادوں اور تجربات کے تبادلے سے منسلک کرتے ہیں۔ یہ وہ بچے ہیں جو مطالعے سے خالص خوشی حاصل کرتے ہیں اور یہ خوشی ان کے اندر گہرائی تک بسی ہوتی ہے۔

تحقیق کے مطابق جن بچوں کو وقت گزاری کے لیے مطالعہ کرنے کی عادت ہوتی ہے، ان میں اکیلے پن اور ڈپریشن لاحق ہونے کے امکانات بہت ہی کم ہوتے ہیں، خاص طور پر ان بچوں کے مقابلے میں تو بہت ہی کم جنہوں نے اپنے اندر مطالعے کی عادت پیدا نہیں کی ہوتی ہے۔

مطالعہ جواں سال افراد کو پُرسکون رکھنے میں مدد کرتا ہے، انہیں اپنی قدر جاننے کا احساس پیدا کرنے میں مدد کرتا ہے، دیگر لوگوں کے لیے ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے، ذہنی صلاحیتوں میں تقویت پہنچاتا ہے، زندگی میں آگے چل کر الزائمر جیسی بیماریوں کے امکانات کو کم کرتا ہے، ہمدردی اور سخاوت سکھاتا ہے، زندگی کو دیکھنے کے لیے ایک سے زائد زوایے فراہم کرتا ہے۔ مطالعے کے فوائد بے تحاشا ہیں، شاید آم کھانے کے فوائد سے بھی زیادہ۔

آخر کیوں والدین بچے کے ابتدائی برسوں کے دوران تربیت و پرورش کے اس اہم پہلو پر زیادہ دھیان نہیں دیتے؟ حالانکہ مطالعہ بچے اور والدین کے درمیان رشتے کی مضبوطی میں اہم کردار ادا کرتا ہے لیکن اس کے باوجود چند والدین سمجھتے ہیں کہ بچوں کو مطالعہ کی طرف راغب کرنا صرف اور صرف اساتذہ کا کام ہے۔

اسکولیسٹک ایجوکیشن ریسرچ فاؤنڈیشن (Scholastic Education Research Foundation) کی جانب سے بچوں پر کی جانے والی تحقیق میں یہ پایا گیا کہ 4 سے 10 برس کے 80 فیصد بچوں کو گھروں میں باآواز بلند مطالعے کا رجحان پسند ہے اور پورے دن میں یہی ان کا پسندیدہ وقت ہوتا ہے کیونکہ اس دوران وہ اپنے والدین کے ساتھ خصوصی وقت گزارتے ہیں۔

کئی بچوں کے لیے ایک ایسا شخص مطالعے کے لیے ترغیب کا باعث بنتا ہے جو کہانیوں پر ہونے والی گفتگو میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ بچوں کو صرف مطالعہ ہی پسند نہیں ہوتا بلکہ انہیں کہانی دہرانے کا بھی کافی شوق ہوتا ہے۔

مطالعے سے شغف کو ایک تنہائی پسند سرگرمی سمجھنا بالکل بھی ٹھیک نہیں۔ کسی کہانی کے بارے میں اگر ایک بچہ جو کچھ سوچتا ہے اس پر والدین اگر دلچسپی ظاہر کریں اور کہانی کے حوالے سے اس کے نکتہ نظر کو سنیں تو اس طرح بچے میں تجزیاتی صلاحیت پیدا ہوگی اور اپنی رائے دیگر لوگوں تک پہنچانے کے لیے اعتماد حاصل ہوگا۔


یہ مضمون 11 جولائی 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

Intasar Jul 14, 2019 10:38am
اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکولوں کو پاپولر بنانے کے لئے اسکول انتظامیہ ۱۰۰% نتائج کا اعلان اور دعوا کر تے ہیں ۔