امریکا کی جانب سے بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد جب گوگل کے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کا لائسنس منسوخ ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تو ہواوے نے اپنا آپریٹنگ سسٹم متعارف کرانے کا اعلان کیا۔

تاہم اب امریکا کی جانب سے پابندیوں میں نرمی کی جارہی ہے تو چینی کمپنی نے اپنے فونز کے لیے اپنے تیار کردہ ہونگ مینگ سسٹم کی بجائے گوگل کے اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کو ہی برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

چین کے سرکاری خبررساں ادارے ژنہوا کے مطابق ہواوے کی سنیئر نائب صدر کیتھرین چین نے کہا ہے کہ ہونگ مینگ آپریٹنگ درحقیقت فونز کے لیے ڈیزائن ہی نہیں کیا گیا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ اس آپریٹنگ سسٹم کو صنعتی مقاصد کے لیے تیار کیا گیا ہے اور اس میں کسی فون آپریٹنگ سسٹم کے مقابلے میں کوڈز بہت کم ہیں جبکہ کسی فون کے مقابلے میں لیٹنسی بہت کم ہے، یعنی یہ بہت زیادہ والیوم کا دیٹا بہت کم وقت میں پراسیس کرسکتا ہے۔

ہواوے کے چیئرمین لیانگ ہوا نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ ہونگ مینگ کو انٹرنیٹ آف تھنگز ڈیوائسز کے لیے تیار کیا گیا تھا اور کمپنی نے تاحال فیصلہ نہیں کیا کہ اسے فون آپریٹنگ سسٹم کے لیے استعمال کرنا چاہیے یا نہیں۔

خیال رہے کہ رائٹرز نے اتوار کو اپنی ایک رپورٹ میں بتایا تھا کہ ٹرمپ انتظامیہ آئندہ 2 سے 4 ہفتوں میں ہواوے کو مصنوعات فروخت کرنے والی کمپنیوں کے لائسنسز کی منظوری دینے کے لیے تیار ہے، تاکہ وہ پرزہ جات چینی کمپنی کو فروخت کرسکیں۔

یہ ہواوے کو مئی میں بلیک لسٹ کیے جانے کے بعد پابندیوں میں نرمی کا عندیہ دینے والا پہلا نمایاں اقدام ہوگا۔

گزشتہ ماہ جی 20 کانفرنس کے دوران چینی صدر سے ملاقات کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اعلان کیا تھا کہ امریکی کمپنیوں کو ہواوے کے ساتھ کاروبار جاری رکھنے کی اجازت دی جائے گی جبکہ گزشتہ ہفتے امریکی محکمہ تجارت نے چینی کمپنی سے کاروبار کے لیے امریکی کمپنیوں کو خصوصی لائسنس کا اجرا جاری رکھنے کا عندیہ دیا تھا۔

امریکی پابندیوں میں نرمی کے اشارے کے بعد اب تجزیہ کاروں نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2019 میں ہواوے فونز کی فروخت 26 کروڑ تک پہنچ سکتی ہے خصوصاً اگر اسے جلد دوبارہ گوگل لائسنس تک رسائی مل جائے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق جولائی کے آخر تک اگر ہواوے کو گوگل موبائل سروسز تک رسائی مل جائے تو رواں سال ڈیوائسز کی فروخت 26 کروڑ سے تجاوز کرسکتی ہے جبکہ لائسنس کے بغیر یہ اعدادوشمار 23 کروڑ کے قریب ہوسکتے ہیں۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے ہواوے کو رواں سال مئی میں ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے بلیک لسٹ کیا تھا جس کے لیے کمپنی کے چینی حکومت سے مبینہ روابط کو بنیاد بنایا گیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں