اپوزیشن لمبا سفر طے کرچکی، حکومت کی خواہش کیسے پوری کریں؟ فضل الرحمٰن

اپ ڈیٹ 25 جولائ 2019
حکومتی وفد نے مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ — فوٹو: جاوید حسین
حکومتی وفد نے مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کی تھی۔ — فوٹو: جاوید حسین

چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملے میں حکومتی وفد اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے درمیان ملاقات بے نتیجہ رہی جہاں مولانا کے انکار کے باوجود حکومتی وفد بہتری کے لیے پرامید دکھائی دیا۔

اسلام آباد میں مولانا فضل الرحمٰن سے ان کی رہائش گاہ پر سینیٹ میں قائد ایوان شبلی فراز اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ہمراہ حکومتی وفد نے ملاقات کی۔

ملاقات میں اپوزیشن اور حکومتی وفد کے درمیان چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر گفتگو ہوئی۔

ملاقات کے بعد میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینیٹ کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد آچکی ہے جس کا فیصلہ اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس (اے پی سی) میں ہوا تھا۔

مزید پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: چیئرمین سینٹ کا اپوزیشن کا ڈٹ کر مقابلے کا عندیہ

انہوں نے کہا کہ اپوزیشن اب بہت لمبا سفر طے کرچکی ہے، کیسے ممکن ہوگا کہ اب حکومتی وفد کی خواہش پوری کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد واپس لے لی جائے۔

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ میرے لیے مشکل ہے کہ تحریک عدم اعتماد کا یہ فیصلہ میری ہی صدارت میں ہوا ہے، جبکہ ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔

شبلی فراز کا کہنا تھا کہ چیئرمین سینٹ کی تبدیلی پر مولانا فضل الرحمٰن سے بات چیت ہوئی ہے، ہم یہاں سینیٹ میں سیاسی تناؤ کو کم کرنے کی غرض سے ہی آئے تھے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم سیاسی لوگ ہیں، تاہم کوشش تھی کہ سینیٹ کا وقار متاثر نہ ہو کیونکہ عدم اعتماد اور چیئرمین سینٹ پر ووٹنگ بے شک ہو مگر تناؤ نہیں ہونا چاہیے۔

یہ بھی پڑھیں: تحریک عدم اعتماد: سینیٹ سیکریٹریٹ کا اپوزیشن کی ریکوزیشن پر اعتراض

اس موقع پر وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کا کہنا تھا کہ ہم بلوچستان کے تناظر میں ہی مولانا سے ملنے کے لیے آئے تھے۔

انہوں نے کہا کہ ہم ایسا قدم اٹھانا چاہتے ہیں کہ حالات بہتری کی جانب جائیں اور کچھ ایسا نہ ہو کہ موجودہ صورتحال کے منفی اثرات مرتب ہوں کیونکہ چیئرمین سینیٹ کا ویسے بھی ڈیڑھ سے دو سال بعد دوبارہ انتخاب ہونا ہے۔

جام کمال کا کہنا تھا کہ تحریک عدم اعتماد جمہوری حق ہے، مگر اس کی سینیٹ میں مثال نہیں ملتی، تاہم اس سے ایسا نہ ہو کہ عدم اعتماد کاسلسلہ ہر 3 سے 4 ماہ بعد نہ دہرایا جائے۔

چیئرمین سینیٹ کی خدمات پر بات کرتے ہوئے وزیراعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ 'صادق سنجرانی نے بڑے اچھے انداز میں ایوان کو چلایا ہے، چند اختلافات کی وجہ سے مستقبل کی سیاست متاثر نہ ہو۔'

مزید پڑھیں: چیئرمین و ڈپٹی چیئرمین پر عدم اعتماد، سینیٹ اجلاس یکم اگست کو طلب

انہوں نے امید کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'مولانا دیگر اپوزیشن جماعتوں کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔'

دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال نے شہباز شریف سے رابطے کی کوشش کی تاہم وہ نہ ہوسکا۔

ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ جام کمال، شہباز شریف سے بھی تحریک عدم اعتماد واپس لینے کی درخواست کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں