گزشتہ چند برسوں سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت کا دھیان میکرو اکنامک کے بگڑے توازن کو ٹھیک کرنے پر مرکوز ہے۔ تاہم ملک میں ایسے متعدد پالیسی مسائل موجود ہیں جو ایمانداری و قابلیت کے حامل اٹل فیصلوں کے متقاضی ہیں۔ ایسے ہی پالیسی مسائل کی 10 مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔

ریکوڈک

حال ہی میں عالمی بینک کی کورٹ (آئی سی ایس آئی ڈی) کا پاکستان کو 5.9 ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کرنے کا حکم دراصل جھوٹی حب الوطنی، نااہلی اور کرپشن کا کلاسیکی نتیجہ ہے۔ اقوام متحدہ کے تجارتی ادارے (یو این سی ٹی اے ڈی) نے تجویز دی تھی کہ پاکستان کو بھارت کی طرح کافی عرصہ پہلے ہی غیر مساوی سرمایہ کاری کے ایسے معاہدے کی مذمت کرنی چاہیے تھی جو ایک غیر ملکی کمپنی کو اس کے خلاف مقدمہ دائر کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

عدالت کی جانب سے ریکوڈک پر ہرجانے کی ادائیگی کا فیصلہ حتمی ہے جبکہ کمپنی سے مزید مقابلہ کرنا بے کار ہوسکتا ہے اور یہ غیر ملکی سرمایہ کاری میں رکاوٹ کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ اس کے علاوہ ریکوڈک اور اس کے آس پاس موجود تانبے اور سونے کے بھاری مقدار میں (ایک کھرب ڈالر کی مالیت کے) ذخائر سے فائدہ اٹھانے میں تاخیر کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

حکومت کو چاہیے کہ وہ کسی بھی طریقے سے ہرجانے کی ادائیگی سے انکار کرتے ہوئے ایسا حقیقت پسندانہ طریقہ ڈھونڈنے کی کوشش کرے جس کی مدد سے ہم اس بھاری جرمانے کو ادا کرنے سے بچ جائیں اور معدنیاتی وسائل کا جلد سے جلد، مؤثر اور منافع بخش استعمال ممکن ہو۔

ایل این جی کی درآمدات

پاکستان کے سابق سربراہان سوئی گیس میں تیزی سے ہوتی کمی سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود بھی پائیدار درآمدات کے لیے انتظامات کرنے میں ناکام رہے، جس کی مثال ایران پائپ لائن ہے۔

گزشتہ حکومت نے قطر کے ساتھ ’پُرکشش نظر آنے والی‘ ایل این جی ڈیل پر گفت و شنید کی۔ پھر اتنے ہی مبہم انداز میں 2 ایل این جی ٹرمنلز کا ٹھیکہ دے دیا گیا۔ کون انتہائی مطلوب تیسرے ٹرمنل کا ٹھیکہ لیتا ہے اب یہ فیصلہ کرنے کے لیے کہ ایک بہت ہی پیچیدہ سا کھیل کھیلا جا رہا ہے۔ گلتی سڑتی مچھلیوں کی بُو ختم کرنے کے لیے حکومت کو چاہیے کہ ایل این جی کاروبار کے پورے فیصلہ سازی کے مرحلے کو مکمل طور پر شفاف بنائے۔

’خودمختار‘ ادارے

300 سے زائد سرکاری اداروں سے مجموعی طور پر ہر سال پاکستان کو 2 فیصد جی ڈی پی کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ ہر شخص اس بات سے متفق ہے کہ ان اداروں کا ڈھانچہ تبدیل کرنا اب ناگزیر ہوچکا ہے، لیکن اگر ایسا نہیں کیا جاسکتا تو پھر حکومت کو ان سے اپنی جان چھڑانی ہوگی یا پھر انہیں بند کردینا چاہیے۔

گزشتہ ایک دہائی کے دوران تھوڑے بھی حالات نہیں بدلے۔ گزشتہ حکومتوں کو پی آئی اے اور اسٹیل ملز جیسے سیاسی طور پر حساس اور کاروباری لحاظ سے تباہ کن اداروں کی نجکاری یا ان کے ڈھانچوں کی ازسرِ نو تبدیلی دشوار معلوم ہوئی۔

لالچ یہ ہے کہ سب سے پہلے سب سے زیادہ منافع بخش اداروں (مثلاً پنجاب پاور پلانٹس) کو کم داموں میں بیچ دیا جائے۔ پہلے سے تخلیق شدہ چیز کو زبردست محنت اور وقت لگا کر دوبارہ تخلیق کرنے کے بجائے اچھا یہی ہوگا کہ حکومت منصوبہ بندی اور اس پر فوری طور پر عمل کے لیے ایک یا اس سے زائد ماہر فرمز کی خدمات حاصل کرے۔

رہائش اور دولت کمانے کے ذرائع پیدا کرنا

سرکاری زمین کی تخصیص اور حصولِ گھر کی فناسنگ دولت کی پیداوار اور جی ڈی پی میں وسعت لانے کے روایتی ذرائع ہیں، جن کی گواہی امریکا اور جدید چین کی تاریخ بھی دیتی ہے۔

پاکستان میں صورتحال یکسر مختلف ہے، سرکاری زمینوں کی باضابطہ اداروں کے ذریعے بندر بانٹ ہوتی ہے اور ان پر غربا یا متوسط طبقے کے لوگوں کے بجائے زیادہ تر امرا اور طاقتور ہی اپنے گھر بناتے ہیں۔ اس عمل نے اقتصادی و سماجی عدم مساوات کو اور بھی زیادہ آشکار کردیا ہے۔

وزیرِاعظم کی ہاؤسنگ اسکیم سے نہ صرف لوگوں کو چھت نصیب ہوگی بلکہ اس کے ساتھ معقول رقبے پر محیط سرکاری زمینوں کی تخصیص اور قابلِ استطاعت ہاؤسنگ کے لیے اٹھائے جانے والے قرضوں کے ذریعے غربا اور متوسط طبقے کے لیے دولت کی پیداوار کے مواقع پیدا ہوں گے اور جی ڈی پی میں بھی اضافہ ہوگا۔

چھوٹے اور متوسط درجے کے کاروباری ادارے (ایس ایم ایز)

حالیہ حکومتوں کی جانب سے مقامی منڈی کے لیے بھاری قرضے اٹھانے کی وجہ سے ان چھوٹی اور متوسط درجے کی کمپنیوں کے لیے قرضے کا حصول مسلسل مشکل بنائے رکھا ہے جو ملازمتوں، مصنوعات اور سروسز کی پیداوار کے اہم اور بڑے ذرائع ہیں۔

آج پاکستان میں ایس ایم ایز نام نہاد نجی مالی ذرائع سے 20 سے 30 فیصد کی شرح سود پر کاروبار کو بڑھانے کے لیے رقوم قرض پر اٹھارہے ہیں۔ ایس ایم ایز کو نارمل بینکنگ ذرائع سے مارکیٹ ریٹ کے مطابق سہل قرضوں کی فراہمی کے لیے ایک معقول پالیسی مطلوب ہے۔

اسپیشل اکنامک زونز (ایس ای زیز)

سی پیک کے دائرہ کار میں آنے والے اور اس کے علاوہ دیگر اسپیشل اکنامک زونز کے قیام میں تاخیر کی اہم وجہ یہ لڑائی رہی ہے کہ یہ زونز کس کی زمین پر بنائے جائیں (اور زیادہ سے زیادہ منافع کے ساتھ زمینیں بیچی جائیں)۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ’دائرہ البارزہ‘ (imminent domain) پر ایک قانون نافذالعمل کرے جس کے تحت Pre-industrial قیمتوں پر ایس ای زیز کے لیے زمینوں کی مانگ کرے۔ اس طرح حکومت کا پیسہ بچے گا اور ایس ای زیز کے قیام کے عمل میں بھی تیزی آئے گی۔

کوڑے کا بہتر استعمال

پاکستان کے بڑے بڑے شہر اپنے ہی کوڑے کرکٹ میں ڈوبتے جا رہے ہیں، جس کا ایک نظارہ گزشتہ ہفتے کی مون سون بارشوں کے بعد کراچی کی بدتر صورت میں دیکھا۔ کراچی روزانہ 11 ہزار ٹن ٹھوس کوڑا پیدا کرتا ہے جبکہ لاہور 7 ہزار اور حیدرآباد 4 ہزار ٹن۔ ٹھوس کوڑے کو توانائی میں بدلنے والے پلانٹس کوڑا کو ٹھکانے لگانے کا ایک اچھا حل ثابت ہوسکتا ہے۔

کچھ لاطینی امریکی ممالک 6 سے 20 سینٹ فی کلو واٹ ادا کر رہے ہیں تاکہ امریکی اور سوئیڈش کمپنیاں انہیں اپنے پیسوں سے مؤثر ترین پلانٹس لگا کردیں۔

پاکستان میں صوبائی حکام 9 سے 10 سینٹس کی پیش کش کرتے ہیں۔ اس ریٹ پر لاہور میں قائم چینی پلانٹ متروک ہوچکے ہیں۔ کوڑے کے استعمال سے چلنے والے پاور پلانٹس میں سرمایہ کاری کو پُرکشش بنانے کے لیے حقیقت پسندانہ ریٹس اور کلیکشن فیس نہایت اہمیت کی حامل ہے۔

تھر کا کوئلہ

تھر کے وسیع رقبے پر پھیلے کوئلے کے ذخیرے سے پاکستان پوری طرح سے فائدہ اٹھانے سے قاصر رہے گا کیونکہ پلانٹس کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے پانی کی کمی لاحق ہے۔ پھر کاربن کا اخراج ناقابلِ قبول حد تک زیادہ ہوگا اور کوئلے سے پیدا ہونے والی بجلی کی پیداوار دیگر متبادل ذرائع سے زیادہ سستی نہیں ہوگی کیونکہ (متروکہ سازو سامان کے ساتھ) کان کنی پر (ورجینیا، امریکا کے 8 ڈالر کے مقابلے میں 40 ڈالر کے ساتھ) بھاری لاگت آتی ہے۔

تھر کے کوئلے کو پائپ لائن کے معیار کی گیس میں تبدیل کرنے سے اسے توانائی، کھاد اور دیگر مقاصد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے، یوں کاربن کے اخراج پر قابو پانا اور کان کنی کو زیادہ مؤثر بنانا ممکن ہوسکے گا۔ اس کام کو حقیقت کا روپ دینے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی دستیاب ہے۔ حکومت اور توانائی کی پیداوار سے وابستہ کمپنیوں کو اس جدید ٹیکنالوجی پر سرمایہ کاری اور اسے اپنانے کی ضرورت ہے۔

مینوفیکچرنگ (پیداوار)

پاکستان کی جی ڈی پی میں پیداوار کے شعبہ کا حصہ 10 فیصد ہے۔ جب تک پاکستان اپنی نوزائیدہ مقامی صنعتوں (’لبرلائزیشن‘ جو کہ خودکشی کے مترادف ہے اس کی وکالت کرنے والوں کو نظر انداز کرتے ہوئے) اہم ٹیرف اور نان ٹیرف ’تحفظ‘ نہیں بڑھاتا اور/یا اپنے کاروباری اداروں کو مؤثر غیر ملکی پیداواری اداروں کے ساتھ مشترکہ منصوبوں میں قدم رکھنے (وہ پیداواری ادارے اگر پاکستان میں برآمدات نہیں کرسکتے تو وہ اس قسم کے مشترکہ منصوبوں میں ضرور شریک ہوں گے) کے لیے حوصلہ افزائی نہیں کرتا تب تک یہ ایک غیر صنعتی ملک ہی رہے گا۔

سی پیک

پاکستان کو ترقی کے لیے انفرااسٹریچکر درکار ہے اور چین واحد ایسا ملک ہے جو اس کی تعمیر کے لیے تیار ہے۔ ان کے باضاطہ قرضے ’سستے‘ (ادائیگی کے لیے طویل دورانیوں اور 2 سے 3 فیصد کی شرح سود کے ساتھ، ٹھیک ’گرانٹ‘ کی طرح) ہیں۔

پاکستانی کمپنیوں کو توانائی کے منصوبوں کے لیے دیے جانے والے قرضے ’کاروباری یا کمرشل‘ تھے (جن میں سود کی شرح 6 فیصد تھی)۔ چونکہ پاکستان کے پاس محدود صلاحیتیں تھیں، اس لیے چینی کمپنیوں نے زیادہ تر منصوبوں کو تکمیل تک پہنچایا ہے۔

پاور پلانٹ کے لیے فراہم کیا جانے والا زیادہ تر سامان چینی ساختہ ہے لیکن کئی ٹربائنز اور بوائلرز امریکا کی جنرل الیکٹرک کمپنی سے خریدے گئے تھے۔ توانائی کے منصوبے نہایت منافع بخش ہیں۔ ’ڈیٹ ٹریپ‘ جیسی کوئی بات نہیں۔ چینی قرضوں کو باآسانی ادا کرلیا جائے گا (کم از کم جب تک کہ ماضی میں نافذ ہونے والی شرائط کے ذریعے ان منصوبوں کو اقتصادی طور پر ناقابلِ عمل قرار نہیں دے دیا جاتا۔)

چین کے ساتھ وسیع تعاون پاکستان کی صنعتی اور تجارتی ترقی کا بہترین ذریعہ ہے۔ وزیرِاعظم کے حالیہ دورہ واشنگٹن کی چمک دھمک میں پاکستان کی کاروباری اور سرکاری اشرافیہ کے چند لوگ سی پیک اور چین کے خلاف مغربی پروپیگنڈہ سے متاثر دکھائی دیتے ہیں۔ ڈر ہے کہ کہیں یہ کوئی ایک عظیم اسٹریٹجک بھول نہ کر بیٹھیں۔


یہ مضمون 4 اگست 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں