مصباح الحق کو ہیڈ کوچ اور چیف سلیکٹر کے عہدے دینے پر غور

اپ ڈیٹ 20 اگست 2019
مصباح الحق کی زیر قیادت 2016 میں پاکستانی ٹیم نے ٹیسٹ کی نمبر ایک ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی
مصباح الحق کی زیر قیادت 2016 میں پاکستانی ٹیم نے ٹیسٹ کی نمبر ایک ٹیم بننے کا اعزاز حاصل کیا تھا— فائل فوٹو: اے ایف پی

پاکستان کرکٹ کے کامیاب ترین کپتان مصباح الحق کو پاکستان کرکٹ بورڈ(پی سی بی) کی جانب سے متعارف کردہ نئے ماڈل کے تحت چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کے دہرے عہدے کے لیے مضبوط ترین امیدوار قرار دیا جا رہا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس سلسلے میں ایک اہم پیشرفت اس وقت دیکھی گئی جب پی سی بی نے 22 اگست سے 7 ستمبر تک لاہور کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں لگائے جانے والے پری سیزن ٹریننگ کیمپ کے لیے مصباح الحق کو کمانڈنٹ مقرر کیا ہے۔

مزید پڑھیں: ویرات کوہلی کا نیا عالمی ریکارڈ، دہائی کے بہترین بلے باز بن گئے

ذرائع کے مطابق مصباح الحق نے کیمپ کے لیے کھلاڑیوں کا انتخاب بھی خود کیا اور اب وہ ہی ان کی کوچنگ بھی کریں گے لہٰذا اب یہ کیمپ ان کے کے لیے ان دو عہدوں کے لیے اپنی قابلیت ثابت کرنے کا بہترین موقع ہے۔

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لاہور میں صحافیوں کے ایک گروپ سے گفتگو کرتے ہوئے پی سی بی کے منیجنگ ڈائریکٹر وسیم خان نے انکشاف کیا تھا کہ بورڈ سینئر ٹیم کے سلیکشن پینل کے لیے تین ماڈلز پر غور کر رہا ہے جس میں پہلا ماڈل سلیکشن کمیٹی کے چیئرمین اور تین سے چار اراکین پر مشتمل ہے، دوسرے ماڈل کے تحت صرف چیف سلیکٹر کو تعینات کر کے ڈومیسٹک سیزن میں چھ صوبائی ٹیموں کے ہیڈ کوچز کو اضافی ذمے داریاں دی جائیں اور ان سے کہا جائے کہ وہ سلیکٹرز کا کردار ادا کرتے ہوئے باصلاحیت کھلاڑیوں کے نام چیف سلیکٹر کو تجویز کریں۔

تیسرے ماڈل کے تحت صرف ایک ہی شخص کو چیف سلیکٹر اور ہیڈ کوچ کا دہرا عہدہ دیا جائے جسے ڈومیسٹک سیزن کی تمام چھ صوبائی ٹیموں کے ہیڈ کوچ رپورت کریں اور باصلاحیت کھلاڑیوں کے نام تجویز کریں۔

ذرائع کے مطابق پی سی بی نے تیسرے ماڈل کو اپنانے کا فیصلہ کیا ہے کیونکہ اس کی بدولت قومی ٹیم کی شکست کی صورت میں کسی ایک فرد کا احتساب کرنا آسان ہو گا۔

یہ بھی پڑھیں: علیم ڈار نے زیادہ ٹیسٹ میچوں میں امپائرنگ کا عالمی ریکارڈ برابر کردیا

یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضی میں متعدد کھلاڑیوں کو پاکستانی اسکواڈ میں منتخب کیا گیا لیکن انہیں ایک بھی میچ میں نہیں کھلایا گیا کیونکہ فائنل الیون کے انتخاب کا ہیڈ کوچ اور کپتان کے پاس ہوتی تھی اور وہ انہوں نے متعدد کھلاڑیوں کو نظر انداز کیا جبکہ شکستوں کی صورت میں سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ ایک دوسرے پر ملبہ ڈال دیتے کیونکہ کوئی بھی ٹیم کی خراب کارکردگی کی ذمے داری لینے کا تیار نہیں لیتا تھا۔

اس طرح کی ایک مثال سابق سلیکشن کمیٹی کی جانب سے ورلڈ کپ اسکواڈ کے لیے نوجوان محمد حسنین کا انتخاب تھا جہاں سابق چیف سلیکٹر انضمام الحق نے حسنین کو خفیہ ہتھیار قرار دیا تھا لیکن انگلینڈ میں کھیلے گئے میگا ایونٹ میں انہیں ایک بھی میچ نہیں کھلایا گیا اور وہ صرف سیر کر کے وطن واپس لوٹ گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں