'بھارتی شہری ہونے کے ناطے کشمیر سے متعلق حکومتی فیصلے پر بالکل فخر نہیں'

20 اگست 2019
بھارتی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین کے مطابق ہم اپنی مقبولیت اپنے ہی اقدامات کی وجہ سے کھو رہے ہیں — فوٹو بشکریہ ہندوستان ٹائمز
بھارتی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین کے مطابق ہم اپنی مقبولیت اپنے ہی اقدامات کی وجہ سے کھو رہے ہیں — فوٹو بشکریہ ہندوستان ٹائمز

بھارت کے نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر امرتیا سین نے بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت کے کشمیر کے حوالے سے اقدامات پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسئلہ کشمیر غیر جمہوری طریقے سے حل نہیں ہوسکتا۔

بھارتی نشریاتی ادارے این ڈی ٹی وی کو دیئے گئے انٹرویو کے دوران حکومتی فیصلے میں غلطی کی نشاندہی کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 'بھارتی شہری ہونے کے ناطے مجھے اس پر بالکل فخر نہیں کہ دنیا بھر میں اپنی جمہوریت کا لوہا منوانے اور اتنا کچھ حاصل کرنے کے بعد ہم اپنی مقبولیت اپنے ہی اقدامات کی وجہ سے کھو رہے ہیں'۔

مزید پڑھیں: `[کشمیر جلد بنے گا بھارت کا افغانستان!][2]`

خیال رہے کہ بھارتی حکومت نے رواں ماہ کے آغاز میں مقبوضہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت کو ختم کردیا تھا اور ریاست کو 2 وفاقی اکائیوں میں تبدیل کرنے کا بل پیش کیا تھا۔

بھارتی حکومت کے فیصلے سے بھارت کے دیگر ریاستوں کی عوام کو بھی مقبوضہ کشمیر میں جائیداد خریدنے اور رہائش اختیار کرنے کا حق حاصل ہوا جس کے بارے میں ڈاکٹر امرتیا سین کا کہنا تھا کہ 'اس بات کا فیصلہ جموں و کشمیر کی عوام کو کرنے دینا چاہیے تھا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'یہ کشمیریوں کی زمین ہے اور اس حوالے سے ان کا نقطہ نظر قانونی ہے'۔

انہوں نے حکومت کے مقبوضہ کشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں کو زیر حراست میں لینے کے بی جے پی حکومت کے فیصلے پر بھی تنقید کی۔

یہ بھی پڑھیں: ’کیا مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ 50 سال بعد کردار ادا کرے گا؟‘

ان کا کہنا تھا کہ 'مجھے نہیں لگتا کہ آپ کبھی مقامی رہنماؤں کی آواز سنے بغیر انصاف کرسکتے ہو اور اگر آپ ہزاروں رہنماؤں پر پابندیاں عائد کردو اور ان میں سے کئی نامور رہنما جو ملک کی قیادت کرچکے ہیں اور ماضی میں حکومتیں بنا چکے ہیں، کو جیلوں میں ڈال دو، تو آپ جمہوریت کا گلا گھونٹ رہے ہو'۔

بھارتی حکومت کی جانب سے کشمیری رہنماؤں کی حراست کے اقدام کے فیصلے کو احتیاطی تدابیر قرار دیے جانے پر ان کا کہنا تھا کہ 'یہ خلاصی حاصل کرنے کا قدیم نو آبادیاتی طریقہ ہے، اس ہی طرح برطانیہ نے ملک کو 200 سال تک چلایا'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'آزادی حاصل کرنے کے بعد ہم دوبارہ احتیاطی اقدامات کا بتا کر لوگوں کو حراست میں لیے جانے کے نو آبادیاتی ورثے پر عمل پیرا ہوں گے، مجھے اس کی کبھی امید نہیں تھی'۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں