سری نگر: بھارتی جبر کے خلاف احتجاج کرنے والوں پر فورسز کی شیلنگ، متعدد زخمی

24 اگست 2019
مظاہرے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی—فوٹو: رائٹرز
مظاہرے میں نوجوانوں کی بڑی تعداد شریک ہوئی—فوٹو: رائٹرز

مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ظلم و ستم کے خلاف حریت رہنماؤں کی کال پر جمعے کو سری نگر کے علاقے صورہ میں عوام نے احتجاج کیا، جس پر بھارتی قابض فورسز نے پیلٹ اور آنسو گیس کی شیلنگ کردی۔

خیال رہے کہ حریت رہنماؤں کی کال پر مظاہرین نے نماز جمعہ کے بعد سرنگر میں اقوام متحدہ کے دفتر کے باہر جاکر احتجاج کا اعلان کیا تھا۔

سری نگر میں لگنے والے پوسٹرز میں حریت رہنماؤں کی جانب سے ہر نوجوان، بزرگ، مرد اور عورت پر زور دیا گیا تھا کہ وہ اس مارچ کا حصہ بنیں تاکہ بھارت اور پوری دنیا کو یہ پیغام پہنچایا جاسکے کہ کشمیری اپنے علاقے میں بھارتی قبضہ اور ہندو ثقافت کو تسلیم نہیں کریں گے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: بھارتی اقدام کے خلاف اقوام متحدہ کے دفتر کی طرف مارچ کا اعلان

اس اعلان کے ساتھ ہی مقبوضہ وادی میں بھارتی فوج نے کرفیو اور دیگر پابندیوں کو مزید سخت کردیا تھا جبکہ ان مقامات جہاں کچھ وقت کے لیے نرمی کی گئی تھی وہاں بھی اسٹیل بیرکس اور خاردار تاروں کو لگا کر سڑکوں، پلوں اور دیگر راستوں کو مکمل طور پر بند کردیا تھا، یہی نہیں بلکہ اقوام متحدہ کے دفتر اطراف بھارتی فورسز نے مہلک ہتھیاروں کے ساتھ موجود رہی تھی۔

تاہم ان سب پابندیوں اور رکاوٹوں کے باوجود کشمیری عوام اپنے حق خود ارادیت اور بھارتی جبر کے خلاف سڑکوں پر نکلے، تاہم اس احتجاج کو بھارتی فورس نے جھڑپ میں تبدیل کردیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی اردو سروس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ صورہ کے علاقے میں نماز جمعہ کے بعد مظاہرے کیے گئے۔

مظاہرین میں نوجوان، بزرگ، مرد و خواتین کی بڑی تعداد شریک تھی، تاہم ان نہتے مظاہرین پر بھارتی فورسز نے پیلٹ گن، آنسو گیس کے شیل کا بے دریغ استعمال کیا جس سے متعدد افراد زخمی ہوگئے۔

تاہم مقبوضہ وادی میں مواصلاتی نظام بند ہونے اور مکمل لاک ڈاؤن کے باعث زخمیوں کی صحیح تعداد سامنے نہیں آسکی۔

نشریاتی ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پرامن مظاہرے کے راستے میں ایک گلی سے سیکیورٹی فورسز کی جانب سے داخلے کی کوشش کی گئی، جس کے بعد صورتحال پرتشدد ہوگئی۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی کا خطرہ ہے، عالمی ادارے کی وارننگ

بھارتی فوج نے نہ صرف مظاہرین پر فائرنگ و شیلنگ کی بلکہ انہیں سری نگر کے مختلف علاقوں میں نماز جمعہ کے بڑے اجتماع کی بھی اجازت نہیں دی گئی۔

واضح رہے کہ بھارت کی جانب سے 5 اگست کے اقدام کے بعد یہ مسلسل تیسرا جمعہ تھا، جس میں جامع مساجد میں نماز کے اجتماعات کی اجازت نہیں دی گئی۔

یہ بھی بتایا گیا کہ مقبوضہ کشمیر کے دیگر علاقوں پلوامہ، شوپیاں، بارہ مولہ، کپواڑہ، کلگرام میں جامع مسجد میں نماز جمعہ کے اجتماعات پر پابندی رہی۔

علاوہ ازیں مقبوضہ وادی میں 19ویں روز بھی کرفیو اور مواصلاتی نظام کا مکمل بلیک آؤٹ رہا، جس نے پورے علاقے میں موجود آبادی کی پریشانیوں میں مزید اضافہ کردیا۔

مقبوضہ وادی کی گلیوں، چوراہوں پر ہر جگہ بھارتی فوج موجود رہی اور سڑکوں پر خاردار تاریں اور رکاوٹیں ہونے کے باعث پیدل چلنے والوں اور گاڑیوں کی نقل و حمل بھی بند ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے باوجود بھارت مخالف مظاہرے

خیال رہے کہ بھارت نے 5 اگست کو مقبوضہ کشمیری کی خصوصی حیثیت سے متعلق آئین کے آرٹیکل 370 کا خاتمہ کردیا تھا اور وادی کو 2 حصوں میں تقسیم کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اس اعلان سے قبل ہی ہزاروں کی تعداد میں اضافی بھارتی فوجی مقبوضہ وادی میں مرکزی چیک پوائنٹس پر بھیجی گئیں تھیں جبکہ یہ علاقہ پہلے ہی دنیا کا سب سے زیادہ عسکری زون ہے، اس کے ساتھ ساتھ وادی کے 70 لاکھ لوگوں کے لیے ٹیلی فونی رابطے، موبائل فون، بروڈبینڈ انٹرنیٹ اور کیبل ٹی وی سروسز کو معطل کردیا تھا۔

علاوہ ازیں بھارت کی جانب سے متنازع علاقے کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے بعد مزاحمت کو روکنے کے لیے مکمل سیکیورٹی لاک کردیا گیا تھا جبکہ اب تک مقبوضہ وادی میں کم از کم 4 ہزار افراد، جس میں زیادہ تک نوجوان ہیں انہیں حراست میں لیا جاچکا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں