مبینہ چور ہلاکت کیس: ملزم کے اہلخانہ سے 'رشوت' لینے والی تفتیشی ٹیم گرفتار

بہادرآباد میں تشدد سے ایک کم عمر مبینہ چور ہلاک ہوا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی
بہادرآباد میں تشدد سے ایک کم عمر مبینہ چور ہلاک ہوا تھا—فائل فوٹو: اے ایف پی

کراچی پولیس نے بہادرآباد میں تشدد سے ہلاک ہونے والے مبینہ چور کے کیس میں ملزمان کے اہل خانہ سے مبینہ طور پر رشوت لینے پر فیروزآباد تھانے کے تفتیشی افسر فاروق اعظم اور ان کی ٹیم کو مقدمہ درج کرکے گرفتار کرلیا۔

سینئر سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس ایس پی) شرقی غلام اظفر مہیسر کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ پاکستان پینل کوڈ (پی پی سی) کی دفعہ 384 اور 384 کے تحت ملزمان کے خلاف مقدمہ نمبر (2019/ 245) کرلیا گیا۔

خیال رہے کہ 17 اگست کو شہر قائد کے علاقے بہادرآباد میں لوگوں کے تشدد سے ایک کم عمر مبینہ چور ہلاک ہوگیا تھا جبکہ پولیس کا کہنا تھا کہ 2 مشتبہ شخص کوکن سوسائٹی میں ایک گھر میں بظاہر چوری کے مقصد سے داخل ہوئے تھے۔

مزید پڑھیں: کراچی: بہادرآباد میں تشدد سے کم عمر مبینہ چور ہلاک، وزیراعلیٰ کا نوٹس

پولیس نے بتایا تھا کہ ان میں سے ایک شخص فرار ہوگیا تھا جبکہ دوسرے مشتبہ شخص کو گھر والوں نے پکڑ لیا تھا، جس کے بعد علاقہ مکین جمع ہوئے تھے اور پولیس کے آنے سے قبل اسے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔

بعد ازاں لڑکے کو جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر (جے پی ایم سی) منتقل کیا گیا جہاں اس کی موت کی تصدیق کردی گئی۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مرنے والے لڑکے کی عمر 16 سے 17 سال کے درمیان تھی جبکہ بعد ازاں لڑکے کی شناخت مرنے والے ریحان ولد زہیر کے نام سے ہوئی جو خداداد کالونی کا رہائشی تھا۔

لڑکے کے پوسٹ مارٹم میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ڈنڈے اور بلوں کی وجہ سے اس کے چہرے اور سر پر کافی چوٹیں آئی تھیں۔

تاہم اسی روز پولیس نے کم عمر لڑکے کے قتل کے الزام میں گھر کے مالکان کو گرفتار کرکے مقدمہ درج کرلیا تھا جبکہ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے بھی نوٹس لیا تھا۔

اگلے روز پولیس نے کہا تھا کہ مزید 3 ملزمان کو گرفتار کیا گیا اور کُل گرفتاریوں کی تعداد 5 ہوگئی۔

اس تمام معاملے پر ایس ایس پی نے بتایا کہ تفتیشی ٹیم ملزم کے گھر گئی اور رہائش گاہ میں زبردستی داخل ہوکر ان اہل خانہ کے اراکین کو ہراساں کیا۔

یہ بھی پڑھیں: کم عمر 'چور' کے قتل کو دہشت گردی کے طور پر دیکھ رہے ہیں، پولیس

ایس ایس پی کا کہنا تھا کہ 'تفتیشی ٹیم نے ایک ملزم کے اہل خانہ سے مبینہ طور پر رقم وصول کی اور یہ معاملہ زیرتفتیش ہے'۔

مذکورہ افسر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں ایس آئی او فارق اعظم، سب انسپکٹر رحمت، کانسٹیبل شاہ فیصل اور غلام رسول کو نامزد کیا گیا، ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ غلام رسول اس وقت فرار ہے۔

انہوں نے کہا کہ کیس کی تفتیش میرٹ پر کی جائے گی اور اس معاملے میں کوئی کوتاہی برداشت نہیں کی جائے گی۔

علاوہ ازیں ایس ایس پی شرقی نے اس عزم کا اظہار کیا کہ پولیس کے محکمے پر عوام کا اعتماد بحال کریں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں