کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کیخلاف دائر درخواستیں سماعت کیلئے منظور

اپ ڈیٹ 28 اگست 2019
درخواست گزاروں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو غیرقانونی قرار دیا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی
درخواست گزاروں نے کشمیر کی خصوصی حیثیت کی منسوخی کو غیرقانونی قرار دیا ہے — فائل فوٹو: اے ایف پی

بھارت کی سپریم کورٹ میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے اور آرٹیکل 370 کی منسوخی کے خلاف دائر متفرق درخواستیں سماعت کے لیے منظور کرلی گئیں۔

بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ میں آرٹیکل 370 کی منسوخی سے متعلق متفرق درخواستیں دائر کی گئی تھیں جن میں مقبوضہ وادی میں میڈیا پر پابندی سے متعلق درخواست بھی شامل ہے۔

عدالت نے تمام درخواستوں کو سماعت کے لیے منظور کرتے ہوئے وفاق کو نوٹسز بھی جاری کردیے جبکہ کیس کی سماعت 5 رکنی بینچ اکتوبر کے پہلے ہفتے میں کرے گا۔

علاوہ ازیں عدالت نے مقبوضہ کشمیر میں میڈیا کوریج پر عائد پابندی سے متعلق بھی وفاق کو نوٹس جاری کیا۔

خیال رہے کہ بھارتی حکومت کے غیر قانونی اقدام کے بعد کشمیر سے متعلق تقریباً 14 درخواستیں مختلف سیاست دانوں اور سماجی کارکنان کی جانب سے دائر کی گئی تھیں جن میں شاہ فیصل، شہلا راشد، سیتارام یچرے اور ایم ایل شرما وغیرہ شامل ہیں۔

درخواست گزاروں نے بھارتی حکومت کے آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو غیر قانونی قرار دیا جبکہ کشمیر میں نافذ مسلسل کرفیو اور وادی کی صورتحال بہتر بنانے کی بھی استدعا کی۔

مذکورہ درخواستوں کی منظوری کے لیے چیف جسٹس رنجن گوگوئی کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی جنہوں نے ان کیسز کو عدالت عظمیٰ کے 5 رکنی بینچ کو سونپ دیا۔

مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ

خیال رہے کہ بھارت کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے 5 اگست کو صدارتی فرمان کے ذریعے آئین میں مقبوضہ کشمیر کو خصوصی حیثیت دینے والی دفعہ 370 کو منسوخ کرنے کا اعلان کردیا تھا، جس کے بعد مقبوضہ علاقہ اب ریاست نہیں بلکہ وفاقی اکائی کہلائے گا جس کی قانون ساز اسمبلی ہوگی۔

بھارتی آئین کی دفعہ 35 'اے' کے تحت وادی سے باہر سے تعلق رکھنے والے بھارتی نہ ہی مقبوضہ کشمیر میں زمین خرید سکتے ہیں اور نہ ہی سرکاری ملازمت حاصل کر سکتے ہیں، یہ دونوں معاملات بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف تھے۔

آئین میں مذکورہ تبدیلی سے قبل دہلی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں سیکیورٹی اہلکاروں کی نفری کو بڑھاتے ہوئے 9 لاکھ تک پہنچا دیا تھا۔

بعد ازاں مقبوضہ وادی میں کرفیو نافذ کردیا گیا تھا اور کسی بھی طرح کی نقل و حرکت پر پابندی عائد کردی گئی تھی جو عید الاضحیٰ کے موقع پر بھی برقرار رہی، تاہم اس میں چند مقامات پر جزوی نرمی بھی دیکھنے میں آئی۔

مزید پڑھیں: ’مسئلہ کشمیر پر تمام آپشنز زیر غور ہیں‘

بھارتی حکومت کے اس غیر قانون اقدام کے بعد کشمیریوں کی جانب سے مسلسل احتجاج بھی کیا جارہا ہے، جبکہ بھارتی فورسز کے ساتھ جھڑپ میں متعدد کشمیری شہید و زخمی ہوچکے ہیں۔

واضح رہے کہ کشمیر کی خصوصی اہمیت ختم کرنے کے بعد وادی میں ہونے والے انسانی حقوق کے استحصال پر امریکی میڈیا بھی بول پڑا اور اس نے اقوام متحدہ کے کردار پر سوالات اٹھائے تھے۔

سی این این نے اپنی رپورٹ میں سوال اٹھایا کہ ’کیا کشمیر جیسے اس اہم ترین مسئلے پر سلامتی کونسل مزید 50 سال گزرنے کے بعد اپنا کردار ادا کرے گا؟‘

22 اگست کو دنیا میں نسل کشی کی روک تھام کے لیے وقف عالمی ادارے جینوسائڈ واچ نے مقبوضہ کشمیر کے لیے انتباہ جاری کیا تھا۔

عالمی ادارے نے کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کے تناظر میں اقوام متحدہ اور اس کے اراکین سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ بھارت کو خبردار کریں کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں نسل کشی نہ کرے۔

سفارتی محاذ پر پاکستان متحرک

بھارتی کی جانب سے آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد سفارتی سطح پر پاکستان بھی بہت زیادہ متحرک دکھائی دیتا ہے۔

اس ضمن میں نہ صرف پاکستانی وزیر خارجہ دیگر ممالک سے روابط میں ہیں بلکہ اسلام آباد کے مطالبے پر مسئلہ کشمیر پر بات چیت کے لیے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا بند کمرے میں مشاورتی اجلاس بھی منعقد ہوا۔

یاد رہے کہ 22 اگست کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان نے واضح کیا تھا کہ پاکستان، بھارت سے بات چیت کے لیے بہت کچھ کر چکا ہے اب مزید کچھ نہیں کر سکتا، بھارت سے مذاکرات کا فائدہ نہیں ہے۔

انہوں نے اپنے انٹرویو میں نئی دہلی کی موجودہ حکومت کو نازی جرمنی کی حکومت سے تشبیہ دی تھی اور کہا تھا کہ اس وقت 2 ایٹمی طاقتیں ایک دوسرے کی آنکھ میں آنکھ ڈالے ہوئے ہیں، کچھ بھی ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں