مجوزہ نیب قوانین: نجی شہری احتساب کے دائرہ کار میں شامل نہیں ہوں گے

اپ ڈیٹ 31 اگست 2019
نیب ترمیمی بل کو منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی
نیب ترمیمی بل کو منظوری کے لیے ایوان میں پیش کیا جائے گا—فائل فوٹو: اے پی پی

قومی احتساب بیورو (نیب) کے قانون قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے ترمیمی بل کا مسودہ پارلیمنٹ میں پیش کیے جانے کے لیے تیار ہے اور اس میں نجی شہریوں کو احتساب کے دائرہ کار سے خارج کرنے کی تجویز بھی شامل ہے۔

نیب کے قانون میں پیش کی گئی تیسری ترمیم میں کہا گیا ہے کہ ’ نیب قوانین کے اطلاق کی توسیع ایسے نجی شخص یا ادارے تک نہیں کی جاسکتی جس کا براہ راست یا بالواسطہ سرکاری عہدے کے حامل شخص سے کوئی تعلق نہ ہو’۔

وفاقی وزیر برائے قانون اور انصاف ڈاکٹر فروغ نسیم نے 22 اگست کو ایک پریس کانفرنس میں نجی شہریوں کی تحقیقات سے متعلق نیب کے اختیارات ختم کرنے کے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

اس حوالے سے ڈان نیوز کو موصول نیب قانون کے ترمیمی مسودے کی کاپی میں دیگر 10 تجاویز بھی شامل ہیں۔

ترمیمی بل میں تجویز دی گئی ہے کہ ٹرائل اور احتساب عدالتوں کو قبل از گرفتاری اور بعد از گرفتاری، ضمانت کی درخواستوں کے فیصلے کرنے کے اختیارات حاصل ہوسکیں گے۔

قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے تحت نیب کے ملزم کو ضمانت دینے کی کوئی شق شامل نہیں ہے، جس کے نتیجے میں ملزم کو ضمانت کے لیے آئین کے آرٹیکل 199 کے تحت ہائی کورٹ میں درخواست دائر کرنی پڑتی ہے۔

خیال رہے کہ جب قانون کے تحت کوئی حل موجود نہ ہو تو ایک شہری آرٹیکل 199 کے تحت متعلقہ ہائی کورٹ میں بنیادی حقوق کے لیے درخواست دائر کرسکتا ہے۔

مسودے میں غبن کی رقم کی رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے تحت ملزم کی رہائی سے متعلق ترمیم بھی پیش کی گئی ہے، اس میں تجویز دی گئی ہے کہ :

  • پلی بارگین کے ملزم کی درخواست کی منظوری وزیر اعظم کی قائم کردہ کمیٹی دے سکے گی۔

  • چوری شدہ رقم کی رضاکارانہ واپسی اور پلی بارگین کے لیے ہدایات جاری کی جائیں گی۔

  • پلی بارگین اور غبن کی رقم رضاکارانہ طور پر واپس کرنے والا ملزم 10 سال یا اس سے زائد عرصے تک سرکاری عہدے یا ملازمت کے لیے نااہل ہوسکتا ہے۔

ترمیمی بل کے مسودے میں یہ تجویز بھی دی گئی ہے کہ 50 کروڑ روپے کی کرپشن پر بھی کارروائی کرنے کی اجازت متعارف کروائی جاسکتی ہے۔

علاوہ ازیں ترمیمی قانون کے مسودے کے تحت غیر منقولہ جائیدادوں کے تخمینہ کا حساب ضلعی کلکٹر ریٹ یا وفاقی بورڈ برائے ریونیو (ایف بی آر) کے ریٹ میں سے جو زیادہ ہوگا اس سے کیا جائے گا۔

نیب کے نئے قانون میں یہ عمل بھی زیرِغور آئے گا کہ عہدیداران کی کونسی کوتاہیاں جرائم کے زمرے میں آتی ہیں۔

تجویز کردہ ترمیم میں کہا گیا کہ نیب کسی کام میں کوتاہی کو اس وقت تک جرم نہیں مانے گا جب تک اس حوالے سے شواہد موجود نہ ہو کہ عہدیدار نے اس کوتاہی یا فیصلے سے کسی کو مادی فائدہ پہنچایا ہے۔

موجودہ قانون میں ’اختیارات کے ناجائز‘ استعمال سے متعلق سیکشن سے کے حوالے سے نیا قانون کہتا ہے کہ جرم کا ارادہ اور ایسا عمل جس سے سرکاری افسر کے اثاثوں میں غیرقانونی اور بلاجواز اضافہ ہوا ہے، عدالت کے دائرکار میں آئے گا۔

ساتھ ہی مسودے میں کہا گیا کہ ’سرکاری ملازم کے اثاثے محض اس بیناد پر قابل تحویل میں نہیں ہوسکتے کہ وہ کسی جرم کا مرتکب ہوا ہے۔

ترمیمی مسودے کے مطابق ’عدالت کی جانب سے جرم ثابت ہونے پر ہی سرکاری ملازم کے اثاثے منجمد کیے جائیں گے‘۔

بل کے مسودے میں بتایا گیا کہ اگر نیب آرڈیننس کے تحت انکوائری 3ماہ کی مدت میں ختم نہیں ہوتی تو زیر حراست ملزم کو ضمانت پر رہائی مل سکے گی۔

مزید برآں، عوامی عہدہ رکھنے والے ملزم کے خلاف 90 دن کے جسمانی ریمانڈ کی مدت کو 45 دن تک لایا جائے گا۔

نیب کی جانب سے سابق تحقیقات یا تفتیش جو بند کی جاچکی ہے اسے دوبارہ نہیں کھولنے کی تجویز بھی اس ترمیمی مسودے میں شامل ہے۔

علاوہ ازیں نیب حکام ٹیکس عائد کرنے، اسٹاک ایکسچینج سمیت آئی پی اوز اور بلڈنگ کنٹرول سے متعلق معاملات میں اپنے دائرہ اختیار میں کمی لائے گی کیونکہ ان معاملات میں ایف بی آر ، ایس ای سی پی اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹیز مناسب کارروائی کرسکتے ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں