افغانستان میں طالبان کا قندوز پر ’بڑا‘ حملہ

اپ ڈیٹ 02 ستمبر 2019
جنگجوؤں نے تاحال اپنی پوزیشن سے پسپائی اختیار نہیں کی—فائل فوٹو: رائٹرز
جنگجوؤں نے تاحال اپنی پوزیشن سے پسپائی اختیار نہیں کی—فائل فوٹو: رائٹرز

افغانستان میں سرکاری حکام نے کہا ہے کہ طالبان کی جانب سے قندوز شہر پر کیے گئے بڑے حملے میں کم از کم 15 افراد ہلاک اور 75 سے زائد زخمی ہوگئے جبکہ عسکریت پسند گروپ نے کئی عمارتوں پر قبضوں کا دعویٰ کردیا۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق وزارت داخلہ کے ترجمان نصرت رحیمی نے بتایا کہ طالبان نے تزویراتی شہر قندوز پر چاروں طرف سے حملہ کیا۔

مزیدپڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں افغان ملیشیا کے 14 اہلکار ہلاک

تاہم ابتدائی طور پر اس بات کی تصدیق نہیں ہوسکی کہ ’ حملے میں کتنا نقصان ہوا اور ہلاک ہونے والوں میں کوئی صحافی بھی ہے یا نہیں‘۔

نصرت رحمیی نے دعویٰ کیا کہ ’سیکڑوں طالبان دہشت گرد ہلاک ہوچکے ہیں‘، تاہم ان کے اس بیان کی تاحال کسی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہوسکی۔

دوسری جانب حکومت نے دعویٰ کیا کہ فضائی حملوں کے ذریعے طالبان کی پیش قدمی روک دی گئی جو شہر میں چاروں سمت سے آگے بڑھ رہے تھے۔

اس کے برعکس اطلاعات میں یہ بات سامنے آئی کہ عسکریت پسند گروپ نے تاحال اپنی پوزیشن سے پسپائی اختیار نہیں کی۔

اس حوالے سے برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی میں شائع رپورٹ کے مطابق ایک خود کش حملہ آور نے سٹی پولیس کو نشانہ بنایا جس میں کم از کم 3 شہری اور درجنوں جنگجو ہلاک ہوگئے۔

یہ بھی پڑھیں: افغانستان: طالبان کے حملے میں 9 اہلکار ہلاک، 62 زخمی

افغان حکام نے بتایا کہ جب طالبان نے قندوز میں چاروں طرف سے پیش قدمی کی تو جمعہ کو رات 1 بجے جھڑپ شروع ہوگئی۔

علاوہ ازیں افغانستان کے صدر اشرف غنی نے اپنے بیان میں کہا کہ طالبان شہر میں خوف کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہماری بہادر سیکیورٹی فورسز نے ان کے حملوں کو ناکام بنا دیا۔

حملے کے آغاز کے چند گھنٹوں بعد طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے دعویٰ کیا کہ 'طالبان نے شہر پر چاروں طرف سے حملہ کیا اور اب ہم یکے بعد دیگر سرکاری عمارتوں پر قبضہ کررہے ہیں‘۔

مزیدپڑھیں: افغان امن عمل کے باوجود طالبان کا موسم بہار میں جارحانہ کارروائیوں کا اعلان

دوسری جانب امریکی حکام نے بتایا کہ افغان فضائیہ کو طالبان پر حملوں کے دوران امریکی جنگی طیاروں کی مدد حاصل رہی۔

واضح رہے کہ افغانستان میں صدارتی انتخابات کی مہم کے آغاز کے ساتھ ہی افغان اور امریکی فورسز پر حملوں میں شدت آگئی ہے۔

ایک طرف امریکا اور طالبان کے مابین مذاکرات کا عمل جاری ہے جس کے تحت پینٹاگون افغانستان سے اپنی فوج کو نکالے گا، تاہم دوسری جانب اس طرح کے واقعات بھی رونما ہورہے ہیں۔

مزیدپڑھیں: افغانستان: امریکی ڈرون حملے میں ملا فضل اللہ کی ہلاکت کی اطلاعات

افغانستان میں تقریباً 14 ہزار کے قریب امریکی فوجی موجود ہیں جبکہ گزشتہ دونوں امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ واشنگٹن معاہدے کے بعد بھی افغانستان میں کم از کم 8 ہزار 600 فوجی رکھے گا۔

ٹرمپ نے خبردار کیا تھا کہ معاہدے کے بعد اگر امریکا پر حملہ کیا گیا تو ’ہم دوبارہ ایسی طاقت بن کر واپس آئیں گے جس کی مثال ماضی میں نہیں ملتی‘۔

تبصرے (0) بند ہیں