Dawnnews Television Logo

یوم دفاع پر دفاعی قوت کا جائزہ: پاکستان محفوظ ہاتھوں میں ہے

ملکی دفاع کو ناقابل تسخیر بنانے کے لیے مسلح افواج کی کیا تیاریاں ہیں اور کس طرح کا اسلحہ موجود ہے، آئیے جائزہ لیتے ہیں۔
اپ ڈیٹ 06 ستمبر 2022 09:53am

پاکستان کی مسلح افواج ہمہ وقت سرحدوں کی حفاظت پر مامور ہیں اور یہ افواج دنیا بھر میں اپنے پیشہ ورانہ رویے کے لحاظ سے ممتاز حیثیت رکھتی ہیں۔ پاک افواج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کامیابی حاصل کرکے دنیا کو اپنی صلاحیتوں کا ثبوت دیا اور دیگر ملکوں کی افواج کے لیے ایک اعلیٰ مثال قائم کیا۔

آج قوم یومِ دفاع پاکستان منا رہی ہے۔ آج سے 54 سال قبل بھارت نے پاکستان پر بلاجواز حملہ کرکے ہماری قومی غیرت اور حمیت کو للکارا تھا۔ آج کے دن مسلح افواج اور قوم ایک ساتھ کھڑے ہوکر ملکی سرحدوں کے دفاع کا عہد کرتی ہیں۔

1965ء میں ہونے والے پاک-بھارت معرکے کے بعد اب ملکی دفاع، فوجی حکمت عملی اور حربہ آلات میں بہت کچھ تبدیل ہوچکا ہے۔ ملکی دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنانے کے لیے مسلح افواج کی کیا تیاریاں ہیں اور یہ کس قسم کے اسلحے سے لیس ہے، آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔

پاک آرمی کے جوان—فائل/فوٹو:اے پی
پاک آرمی کے جوان—فائل/فوٹو:اے پی

پاکستان کی مسلح افواج کے 3 بڑے شعبے ہیں۔ جس میں زمینی افواج، بحری افواج اور فضائی افواج شامل ہیں۔ لہٰذا کوشش کرتے ہیں کہ تینوں کی صلاحیتوں کا الگ الگ اور تفصیل سے جائزہ لیں.

پاک فوج



پاکستان کی زمینی افواج یا پاکستان آرمی کی قیادت 4 ستارے کا حامل جرنیل کرتا ہے جسے چیف آف آرمی اسٹاف کہا جاتا ہے۔ اس وقت آرمی کی قیادت جنرل قمر جاوید باجوہ کررہے ہیں جو 10ویں آرمی چیف ہیں۔ یہ افواج 6 لاکھ سے زائد افسران اور جوانوں پر مشتمل ہے، جبکہ اتنی ہی تعداد میں ریزرو افواج بھی موجود ہیں جنہیں جنگ کی صورت میں کسی بھی وقت طلب کیا جاسکتا ہے۔

ملکی جغرافیہ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم چلتا ہے کہ پاکستان کی تقریباً 7 ہزار کلومیٹر طویل زمینی سرحد بھارت، چین، افغانستان اور ایران سے ملتی ہیں، جن میں سنگلاخ اور برف پوش پہاڑ، میدان، صحرا، دریا، دلدلی زمین شامل ہیں۔ لہٰذا ہر علاقے کی مخصوص ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے فوج کو تعینات کیا جاتا ہے، اس کو حربی آلات فراہم کیے جاتے ہیں اور افسران و جوانوں کو تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

— فائل فوٹو: ٹوئٹر
— فائل فوٹو: ٹوئٹر

پاکستان آرمی ایک جدید اور ہمہ جہت لڑاکا فورس ہے۔ پاک آرمی کے لڑاکا شعبوں میں

  • انفینٹری یا پیادہ لڑاکا دستے،
  • آرمرڈ کور،
  • آرٹلری یا توپ خانہ،
  • آرمی ایئر ڈیفنس،
  • انجینئرنگ کور،
  • آرمی ایوی ایشن اور
  • اسٹریٹجک کمانڈ یونٹ شامل ہیں۔

پاکستان آرمی حقیقی معنوں میں 3 جہتی لڑاکا فورس ہے۔ جو زمین، فضا اور سطح آب پر فوجی آپریشن کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

انفینٹری یا پیادہ فوج

انفینٹری یا پیادہ افواج دنیا کی جنگی تاریخ میں سب سے قدیم عسکری قوت ہے۔ انسان نے منظم جنگوں کی ابتدا پیادہ افواج سے ہی کی اور اب تک لڑی جانے والی زیادہ تر جنگوں میں پیادہ افواج نے ہی مرکزی کردار ادا کیا۔

پیادہ افواج کو لڑانے کے لیے بھی ایک بھرپور حکمتِ عملی کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس حکمت عملی پر چینی سپہ سالار اور فلسفی سن زو نے کتاب آرٹ آف وار تحریر کی ہے۔ جس میں کسی جرنیل کے لیے اپنی افواج کی فورمین، لڑائی کے لیے جگہ کے انتخاب، جنگ میں موسم کی اہمیت، پیادہ افواج کی نقل و حرکت، اسلحے اور دیگر موضوعات پر نہایت فلسفیانہ انداز میں بحث کی گئی ہے۔

—آن لائن
—آن لائن

آج کے جدید جنگی دور میں بھی انفینٹری کو کسی بھی آرمی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ پاکستان آرمی انفینٹری میں

  • پنجاب رجمنٹ،
  • بلوچ رجمنٹ،
  • فرنٹیئر رجمنٹ،
  • آزاد کشمیر رجمنٹ،
  • سندھ رجمنٹ اور
  • نادرن لائیٹ انفینٹری رجمنٹ شامل ہیں۔

جدید جنگی دور میں انفینٹری کو دشمن کے فائر سے محفوظ رکھنے اور جلد از جلد دشمن کے علاقے تک پہنچانے کے لیے انفینٹری میکنائز کالم (جدید بکتر بند گاڑیاں) بھی پاکستان آرمی میں شامل ہوگئی ہیں، جنہیں پہاڑی، صحرائی اور میدانی علاقوں کی مناسبت سے وہاں پہنچایا جاتا ہے۔

آرمرڈ کور

آرمرڈ کور میں زیادہ ٹینکس شامل ہوتے ہیں جو اپنی زبردست فائر پاور کے ساتھ دشمن کے علاقے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں۔ آرمرڈ کور کے دستے جنگ کے دوران سب سے آگے ہوتے ہیں اور ان کے ساتھ انفینٹری یا میکنائز انفینٹری کے دستے شامل ہوتے ہیں۔

آرمرڈ کور کا مقصد تیزی سے دشمن کے علاقے میں پیش قدمی کرنا اور دشمن کو نقصان پہنچاتے ہوئے اس کے علاقے میں گھس جانا ہے، اور پاکستان آرمرڈ ڈویژن دشمن کے لیے ایک خوفناک خواب بن گئی ہے۔

پاکستان آرمی آرمرڈ کور کے پاس پاکستان کے تیار کردہ الخالد ٹینک ہیں جس کو مین بیٹل ٹینک یا کنگ آف بیٹل بھی کہا جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ملک میں تیار کردہ الضرار ٹینک، ٹی 80 یوڈی ٹینک، ٹائپ 85 آئی آئی اے پی اور ٹائپ 69 آئی آئی ایم پی اور ٹائپ 59 ٹینک بھی آرمرڈ کور کا حصہ ہیں۔ آرمی آرمرڈ کور کا تربیتی مرکز نوشہرہ کنٹونمٹ میں قائم ہے۔

الخالد ٹینک—اے ایف پی
الخالد ٹینک—اے ایف پی

آرمرڈ کور میں زیادہ ٹینکس شامل ہوتے ہیں جو زبردست فائر پاور کے ساتھ دشمن کے علاقے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں— اے ایف پی
آرمرڈ کور میں زیادہ ٹینکس شامل ہوتے ہیں جو زبردست فائر پاور کے ساتھ دشمن کے علاقے کی طرف پیش قدمی کرتے ہیں— اے ایف پی

پاکستان اور امریکا کے اشتراک سے تیار ہونے والی آرمرڈ کمانڈ وہیکل سقب (Sakb) بھی پاکستان آرمی کے زیرِ استعمال ہے۔ اس وہیکل میں میدانی جنگ میں متحرک کمانڈ کنٹرول، کمیونیکشن اور انٹیلی جنس یونٹ قائم کیا جاسکتا ہے۔ یہ وہیکل ڈیجیٹل اور الیکٹرانک وار فیئر کے لیے بھی استعمال ہوسکتی ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کی آرمرڈ پرسنل کیریئر بھی آرمرڈ کور کا حصہ ہیں۔

جب سے پاکستان نے دفاعی نمائش آئیڈیا کے انعقاد کا سلسلہ شروع کیا ہے تب سے اس کی کوریج کرتا چلا آرہا ہوں اور متعدد مرتبہ ٹینک میں بیٹھنے کا موقع ملا ہے۔ بلاشبہ ٹینک چلانا اور اس پر دورانِ جنگ ڈیوٹی سرانجام دینے کے لیے آہنی حوصلہ درکار ہوتا ہے۔ ایک چھوٹی سی جگہ میں گولے بارود کے ساتھ بیٹھنا کوئی کم خوفناک کام نہیں۔ پھر ایک اور اہم بات یہ ہے کہ گرمی میں ٹینک کا لوہا گرم ہوجاتا ہے، اور یوں اندر کا درجہ حرارت باہر کے مقابلے میں دوگنا بڑھ جاتا ہے۔ اس کے علاوہ ٹینک کے انجن کی گرمی بھی دوآتشہ کا کام کرتی ہے۔

پاکستان کے تیار کردہ الخالد ٹینک 80 کلو میٹر کی رفتار پر چلتے ہوئے اپنے ہدف پر گولا داغنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ الخالد ٹینک کی اس صلاحیت کا مظاہرہ بھی آئیڈیا کے فائر پاور شو میں سومیانی کی فائرنگ رینج میں دیکھنے کو ملا۔ اس کے گولا داغنے کی آواز اتنی زیادہ ہوتی ہے کہ وہ عام آدمی کے اوسان خطا کرسکتی ہے۔

آرمی آرمرڈ کور نے جنگِ ستمبر 1965ء میں نمایاں کارنامے سرانجام دیے تھے۔ لاہور کے محاذ پر دشمن کی پیش قدمی کو روکا تھا جبکہ کھیم کھرن کے مقام پر ٹینکوں کی مدد سے قبضہ کرنے میں مدد ملی تھی۔ اسی طرح جنگِ ستمبر میں دشمن نے سیالکوٹ، چونڈا، ظفروال اور شکرگڑھ کے علاقے میں ٹینکوں کی گھمسان کی لڑائی لڑی گئی جو دوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹینکوں کی سب سے بڑی لڑائی تھی، جس میں جارحیت کرنے والے کو پاکستان نے منہ توڑ جواب دیا تھا۔

توپ خانہ یا آرٹلری

انفینٹری کے بعد جنگی تاریخ میں سب سے قدیم تصور توپ خانہ کا ملتا ہے۔ جنگی حکمت عملی میں قلعہ بند افواج کے خلاف توپ خانہ سب سے مؤثر ہتھیار ثابت ہوتا تھا جبکہ قلعے کے تحفظ میں بھی توپ خانے کا کلیدی کردار رہتا ہے۔

جدید جنگی حکمت عملی میں توپ خانے کا مقصد حملہ آور کی پیش قدمی کو روکنے کے ساتھ ساتھ اپنی افواج کو ایسا فائر کور فراہم کرنا ہے جس میں پیش قدمی ممکن ہوسکے۔ پاکستان آرمی آرٹلری ڈویژن میں مختلف نوعیت کی گنز شامل ہیں، جن میں سے بعض خود کار، بعض نیم خود کار اور بعض مکمل مینوئل ہیں۔ توپ خانے کے مقاصد کچھ اس طرح سے ہیں۔

—اے ایف پی
—اے ایف پی

  • کسی بھی جنگی آپریشن میں کمانڈر کو فائر سپورٹ فراہم کرنا
  • دشمن کی نشاندہی کرنا اور اس کو ہدف بنانا
  • دشمن کی پیش قدمی روکنا
  • آرمی کے فیلڈ کمانڈرز کو توپ خانے کی صلاحیت اور آپریشن سے متعلق آگاہ رکھنا

آرمی آرٹلری کے پاس

  • 23 کلومیٹر تک مار کرنے والی 155 ملی میٹر قطر کی ایم ون او نائن اے ٹو گن،
  • 30 کلومیٹر تک مار کرنے والی 8 انچ قطر اور 200 کلو وزنی گولا پھینکنے والی،
  • 130 ملی میٹر قطر کی 27 کلو میٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے والی اور
  • 30 کلومیٹر ریجن والی ایم ون نائن ایٹ و دیگر توپیں دستیاب ہیں۔

اس کے علاوہ

  • ایس ایل سی ٹو ریڈار جو 50 کلومیٹر دُور سے میزائل کا پتا لگا کر 35 کلومیٹر کی دُوری پر نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
  • ملٹی پل راکٹ لانچ سسٹم ایک منٹ میں 10 راکٹ 120 کلومیٹر رینج تک داغ سکتا ہے۔

توپ خانے کے آہنی ہتھیاروں کو آپریٹ کرنے کے لیے آہنی حوصلے اور جسمانی ساخت والے افسران اور جوانوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ افسران اور جوانوں کو اسکول آف آرٹلری میں تربیت دی جاتی ہے۔

پاکستان آرمی ایئر ڈیفنس

جدید جنگی ماحول میں ایئر ڈیفنس یا فضائی دفاع اہم ترین شعبہ بن گیا ہے۔ دشمن جب فضائی راستے سے اپنے طیاروں کے ذریعے حملہ آور ہونے کی کوشش کرتا ہے تو زمین سے یہی آرمی ایئر ڈیفنس کے ذریعے اسے منہ توڑ جواب دیتی ہے۔

اس شعبے کا کام دشمن کے جہاز کی نشاندہی کرنا اور ٹارگٹ کو لاک کرکے گرانا شامل ہیں۔

آرمی ایئر ڈیفنس نے 71 جنگی جہازوں کو مختلف معرکوں میں گرایا ہے۔ سیاچن کے محاذ پر آرمی ایئر ڈیفنس نے 1995ء سے 1997ء کے دوران 17 بھارتی ہیلی کاپٹر مار گرائے تھے۔ 1971ء کی جنگ میں 104 جنگی جہازوں کو ہٹ کیا جس میں 39 کریش ہوئے۔ 1965ء کی جنگ میں 110 جنگی جہازوں کو نشانہ بنایا جن میں سے 32 زمین بوس ہوئے۔

بھارت نے خود تسلیم کیا کہ 1971ء میں اس کے 48 فیصد طیاروں کو نقصان زمینی فائر سے ہوا جبکہ 30 فیصد فضائی لڑائی میں ہوا۔

پاکستان آرمی نے بدلتے حالات اور ٹیکنالوجی کے تناظر میں ایئر ڈیفنس نظام کو بہتر بنایا ہے۔ آرمی ایئر ڈیفنس کے پاس مندرجہ ذیل آلات ہوتے ہیں۔

اسکائی گائیڈ ریڈار اور اولیگن گن اسکائی ریڈار 17 کلومیٹر تک دشمن کے جہاز کو تلاش کرنے اور 4 کلومیٹر کے دائرے کے اندر موجود لڑاکا طیارے، میزائل اور یو اے وی کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

جراف ریڈار اور آر بی ایس 70 میزائل سسٹم 40 کلومیٹر دُور دشمن کے جہاز کی پیشگی اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ ریڈار کی مدد سے اپنا میزائل چھوڑتا ہے اور لڑاکا جہاز کے میزائل چھوڑنے سے بھی پہلے اپنے ہدف کو نشانہ بناتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بکتر بند پر نصب ڈی ڈبلیو 18 میزائل، ایف ایم 90 ویپن سسٹم لڑاکا طیاروں، کروز میزائل آرمرڈ ہیلی کاپٹر مار گرانے اور ایف ایم 90، ایل وائی ویپن سسٹم ریڈی ٹو فائر جدید جنگی جہاز، اور یو اے وی کو مار گرانے کی صلاحیت کا حامل ہے۔

آرمی ایئر ڈیفنس کو مجموعی طور پر 94 ستارہ جرأت، تغمہ امتیاز اور امتیازی اسناد تفویض کی جاچکی ہیں، اس کا نعرہ ہے علم، عمل اور عزت۔

کور آف انجینئرز

دورانِ جنگ آرمرڈ اور میکنائز انفینٹری کو معاونت فراہم کرنا کور آف انجینئرز کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان آرمی کی اسالٹ انجینئر بٹالین کے پاس 200 پلانٹس اور آلات ہوتے ہیں، جس کی مدد سے کور آف انجنیئرز چھوٹے ندی نالوں پر، دلدلی علاقوں میں اور بڑی آبی گزر گاہوں جیسا کہ دریا پر منٹوں سے لے کر ایک گھنٹے میں قابلِ بھروسہ پُل اور راستے بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے جو چند میٹر سے لے کر 100 میٹر تک طویل ہوسکتے ہیں۔

کور آف انجینئرز کا ایک کام دشمن کی پیش قدمی روکنے کے لیے کم سے کم وقت میں بارودی سرنگیں بچھانا بھی ہے۔ راکٹ ڈیلیوری مائین سسٹم میں مائینز کی 24 ٹیوب ہوتی ہیں اور یہ 15 کلومیٹر کی دُوری تک اینٹی ٹینک اور اینٹی پرسنل مائنز بچھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مائین ڈسپنسنگ سسٹم 600 میٹر کی گہرائی تک اینٹی ٹینک اور اینٹی پرسنل مائین بچھانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

کور آف سگنلز

میدانِ جنگ میں موجود سپاہی اور مین وار روم میں رابطہ برقرار رکھنا اور دشمن کے حملے سے آگاہ کرنے کی ذمہ داری کور آف سگنلز پر ہوتی ہے۔ کور آف سگنلز دورانِ جنگ فلیڈ کمانڈرز کو وائس میسج اور ڈیٹا کی فراہمی کرتا ہے۔ فیلڈ فارمیشن کے پاس آرمی ٹیکٹیکل کمیونیکیشن سسٹم ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف نوعیت کے ریڈار بھی ہوتے ہیں۔

پاکستان بحریہ



پاکستان کو اللہ تعالی نے جہاں دنیا کے بلند ترین پہاڑی سلسلے عطا کیے وہیں پاکستان کو ایک ہزار کلومیٹر سے زائد طویل ساحلی پٹی بھی عطا کی جو مشرق میں سرکریک سے لے کر مغرب میں جیوانی تک پھیلی ہوئی ہے۔

عالمی قوانین کے تحت پاکستان کی اپنی سمندری حدود ہیں اس کے علاوہ سمندر کے اندر 2 لاکھ 40 ہزار کلومیٹر سے زائد رقبے پر محیط خصوصی معاشی زون اس کے ساتھ اضافی طور پر 50 ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلا کانٹیننٹل شیلف ہے، یوں پاکستان کے پاس سمندر میں بھی ایک بڑا رقبہ موجود ہے جس میں موجود سمندری حیات اور تہہ میں موجود معدنیات پر پاکستان کا حق عالمی سطح پر تسلیم کرلیا گیا ہے۔

پاکستان کو اپنی سمندری حدود کی حفاظت کے علاوہ خصوصی معاشی زون اور کانٹیننٹل شیلف میں موجود وسائل کی حفاظت اور سمندری تجارتی راستوں کو محفوظ بنانے کے لیے ایک مضبوط اور پروفیشنل بحری افواج کی ضرورت ہے اور اس کام کو پاکستان بحریہ بھرپور طریقے سے سرانجام دیتی ہے۔

پاک بحریہ کی امن مشقیں—فوٹو بشکریہ / پاک بحریہ
پاک بحریہ کی امن مشقیں—فوٹو بشکریہ / پاک بحریہ

پاک بحریہ کی امن مشقیں—فوٹو بشکریہ / پاک بحریہ
پاک بحریہ کی امن مشقیں—فوٹو بشکریہ / پاک بحریہ

اگر پاکستان کے مشرق میں دیکھا جائے تو بھارت کی ایک بڑی اور مضبوط بحریہ موجود ہے جبکہ مغرب میں بحیرہ عرب میں موجود پاکستان کے قریب ترین ملکوں ایران، اومان ،متحدہ عرب امارات سے لے کر افریقہ تک کوئی قابلِ ذکر میری ٹائم قوت موجود نہیں ہے۔

پاکستان بحریہ کو 4 سطحی جنگ کے لیے ڈیزائین کیا گیا ہے۔ پاکستان بحریہ سطح آب، زیرِ آب، زمینی اور فضائی کارروائی کرتے ہوئے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اس کے پاس چھوٹے بڑے بحری جہازوں کی تعداد 100 سے زائد ہے۔

پاکستان بحریہ کے سطح آب کے فِلیٹ کو Surface Worrier کہا جاتا ہے۔ یہ شعبہ قیامِ پاکستان کے ساتھ ہی قائم ہوگیا تھا۔ سمندر میں امن قائم رکھنے کے لیے سطح آب پر فرگیٹ، اٹیک کرافٹس اور دیگر پیٹرولنگ بحری جہازوں کا استعمال کیا جاتا ہے۔

پاکستان بحریہ اور اس کے ذیلی ادارے میری ٹائم سیکیورٹی فورس کے زیرِ استعمال بحری جہاز برطانیہ، امریکا، چین، ترکی اور دیگر ملکوں میں تیار کیے گئے ہیں جبکہ ٹیکنالوجی کو منتقل کرنے سے متعلق معاہدوں کے بعد متعدد بحری جہازوں کو کراچی شپ یارڈ اینڈ انجیئنرنگ ورکس میں تعمیر کیا گیا ہے اور یہ سلسلہ تاحال جاری ہے۔

پاکستان بحریہ کے زیرِ استعمال بحری جہازوں کو ان کے حجم اور صلاحیت کے لحاظ سے مختلف کلاس میں ترتیب دیا گیا ہے۔ پاکستان نیوی کے پاس فرگیٹ، اٹیک کرافٹ، ڈسٹرائرر موجود ہیں۔ اس کے علاوہ میری ٹائم سیکیورٹی ایجنسی کے پاس پیٹرولنگ بحری جہاز بھی ہیں۔

پاکستان بحریہ کے متعدد اسکواڈرن ہیں جس میں نواں اسکواڈرن معاونت کے فرائض سرانجام دیتا ہے۔ اس اسکواڈرن کا مقصد سمندر میں موجود شپس تک ایندھن، خوراک اور دیگر ضروری اشیا کی فراہمی کے علاوہ نیول ہاربر میں ڈریجنگ (dredging) کرنا بھی شامل ہے۔ پاکستان بحریہ کے 2 سب سے بڑے بحری جہاز پی این ایس معاون اور پی این ایس نصر اسی اسکواڈرن کا حصہ ہیں۔ سمندر میں موجود مائنز کی صفائی اور تربیت کے لیے بادبانی شپ بھی اسی اسکواڈرن کا حصہ ہے۔

یوم بحریہ کی تقریب میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے — فوٹو: بشکریہ پاک بحریہ
یوم بحریہ کی تقریب میں انسداد دہشت گردی کے حوالے سے عملی مظاہرہ کیا جارہا ہے — فوٹو: بشکریہ پاک بحریہ

ایس ایس جی (نیوی) کے کمانڈوز دشمن کے خلاف کارروائی کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں — فوٹو: بشکریہ پاک بحریہ
ایس ایس جی (نیوی) کے کمانڈوز دشمن کے خلاف کارروائی کا عملی مظاہرہ کررہے ہیں — فوٹو: بشکریہ پاک بحریہ

ڈسٹرائر اسکوڈرن: پاکستان بحریہ کے 2 ڈسٹرائر اسٹارڈن ہیں جس میں 25 اور 18 ڈسٹرائر اسکواڈرن شامل ہیں۔ ان اسکواڈرنز میں پاکستان بحریہ کے متعدد بحری جہاز شامل ہیں جو مختلف طرح کے خود کار اور نیم خود کار اسلحے سے لیس ہیں۔ اس اسکواڈرن میں موجود بحری جہازوں پر مختلف نوعیت کی توپیں فٹ ہیں جبکہ یہ بحری جہاز مختلف رینج تک مار کرنے والے فضائی، سطح آب، خشکی اور زیرِ آب اہداف کو نشانہ بنانے والے میزائل، تارپیڈوز اور ڈیتھ چارج سے لیس ہیں۔

پیٹرن اسکواڈرن: اس میں برق رفتار اٹیک کرافٹس شامل ہیں جس میں چھوٹی مگر کاری ضرب لگانے کی صلاحیت رکھنے والی بوٹس ہیں جو میری ٹائم سرحدوں کی حفاظت کے علاوہ دشمن کو فوری طور پر نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دشمن کے علاقوں میں گھس کر کارروائی کی صلاحیت بھی اس کے پاس موجود ہے۔

پاکستان بحریہ سب میرین سروسز

سطح آب سے نیچے جنگ لڑنے کے لیے سب میرین کا استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان بحریہ کی سب میرین کمانڈ 1964ء میں قائم کی گئی۔ خطے میں پاکستان نیوی پہلی بحری قوت تھی جس نے سب میرین کمانڈ بنائی۔ اس وقت پاکستان کے پاس 9 آبدوزیں موجود ہیں، جو حشمت کلاس آبدوز آگسٹا 70 اے کلاس سب میرین پر مشتمل ہے۔ جبکہ اٹلی کے ڈیزائین کردہ 3 میجٹ کلاس سب میرین بھی موجود ہیں۔

پاکستان کی آگسٹا 90 آبدوز سب سے جدید ہے جو سمندر میں زیادہ گہرائی تک جانے کے علاوہ زیادہ عرصے تک زیرِ آب رہ سکتی ہے۔ یہ آبدوزیں اینٹی شپ میزائل سے لیس ہیں۔

آگسٹا 90 بی—تصویر بشکریہ پاکستان نیوی
آگسٹا 90 بی—تصویر بشکریہ پاکستان نیوی

پاکستان نے زیرِ آب اپنی حربی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ جدید اور تیز حرکت کرنے والی آبدوز کا معاہدہ کیا ہے، کہا جارہا ہے کہ 2028ء تک پاکستان بحریہ کے پاس ایٹمی آبدوز بھی ہوگی۔

زیرِ آب جنگ سب سے زیادہ خطرناک ہوتی ہے۔ پاکستان بحریہ کو یہ کمال حاصل ہے کہ اس نے 1971ء میں زیرِ آب جنگ میں بھارت کو منہ توڑ جواب دیا ہے۔ پاکستان نیوی کی وہ آبدوز آج بھی پاک بحریہ میوزیم کا حصہ ہے جس نے بیک وقت بھارت کے 2 بحری جہازوں کو نشانہ بنایا تھا، جس میں سے ایک غرقاب ہوگیا تھا جبکہ دوسرے کو شدید نقصان پہنچا تھا۔

ایئر اسکواڈرن

پاکستان بحریہ کے فضائی اسکواڈرن میں متعدد نوعیت کے فکس ونگ اور روٹر ونگ طیارے شامل ہیں۔ پاکستان نیوی کا ایئر بیس پی این ایس مہران کراچی اور تربت میں قائم کیا گیا ہے۔ جبکہ اورماڑہ پر لینڈنگ کی سہولت دستیاب ہے۔ پاکستان بحریہ کے پاس برطانوی ساختہ سی کنگ، اے ایس ڈبیلیو اور ایلی ویٹ ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔ یہ ہیلی کاپٹرز سمندر میں نگرانی، تلاش اور امداد کے علاوہ مختلف نوعیت کے اینٹی شپ، اینٹی ایئر کرافٹ اور اینٹی سب میرین ہتھیاروں سے لیس ہوتے ہیں۔

فکس ونگ میں پاکستان بحریہ کے پاس فوکر ایف 72، اے ٹی آر، پی تھری سی اورین اور دیگر نگران طیارے شامل ہیں۔ ان طیاروں میں سمندر کی نگرانی کے جدید آلات ریڈار اور حساس کیمرے موجود ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ان طیاروں میں فضا سے اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت بھی موجود ہے۔

یہ طیارے متعدد اقسام کے میزائل، اینٹی شپ، اینٹی سب میرین میزائل، ہارپون میزائل تارپیڈو سے بھی لیس ہیں۔ دورانِ پرواز یہ نہ صرف دشمن کی تلاش کرسکتے ہیں بلکہ یہ اپنے کمانڈ اور کنٹرول کو اطلاع دینے کے ساتھ ساتھ دشمن کے خلاف ابتدائی کارروائی کرنے کی بھرپور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔

اسپیشل آپریشن فورس

پاکستان بحریہ 1965ء کی جنگ سے حاصل ہونے والے تجربات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اور وار ریویو بورڈ کی سفارش پر اسپیشل آپریشن فورس کا قیام عمل میں لائی۔ ابتدائی طور پر یہ فورس نیوی میرین کہلائی جسے پاکستان اور بھارت کے ساتھ موجود دلدلی علاقوں میں تعینات کیا گیا۔

نیوی کی فورس فضا سے سمندر، فضا سے زمین اور سمندر سے زمین یا زمین سے سمندر میں کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ نیول میرین کے علاوہ نیوی سیل کی خصوصی فورس قائم کی گئی ہے جو فضا، پانی اور خشکی تینوں پر بیک وقت کارروائی کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

نیوی سیل کے کمانڈوز فضا سے سمندر میں پیرا شوٹ یا بغیر پیرا شوٹ کے چھلانگ لگانے، دشمن کے جہازوں پر قبضہ اور بورڈنگ آپریشن کرنے کا بھرپور ہنر جانتے ہیں۔

پاکستان فضائیہ



27 فروری 2019ء کا وہ دن بھلائے نہیں بھول سکتے کہ جب پاک فضائیہ نے ایک زبردست آپریشن میں بھارت کو دُھول چٹائی تھی۔ پاکستان ایئر فورس نے نہ صرف بھارت کے 2 لڑاکا طیارے مار گرائے بلکہ ایک بھارتی فوجی کو بھی قیدی بنایا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس نے دن کی روشنی میں بھارت کو پیغام دیا تھا کہ اس کے فوجی اثاثے پاکستان کے نشانے پر ہیں۔

اس حوالے سے پاک فضائیہ نے بھارت کے بریگیڈ ہیڈ کوارٹر، بٹالین ہیڈ کوارٹر، سپلائی ڈپو اور دیگر مقامات پر ٹارگٹس کو لاک کیا تھا۔ ٹارگٹ کے لاک ہونے کا مطلب تھا کہ پاکستان چاہتا تو بھارت کی کشمیر میں موجود فوج کے بڑے حصے کو نیست و نابود کردیتا مگر انسانی ہمدردی کی بنیاد پر دشمن پر اپنی صلاحیت منوانے کے بعد اس کو زندہ چھوڑ دیا گیا۔ پاکستان کا یہ آپریشن فضائی جنگی تاریخ کا ایک سنہرا باب بن گیا ہے۔

موجودہ اثاثوں کے لحاظ سے پاک فضائیہ دنیا کی 7ویں بڑی فضائی قوت ہے۔

پاک فضائیہ کے چاق و چوبند دستے مزارِ قائد پر سلامی دیتے ہوئے — فوٹو اے ایف پی
پاک فضائیہ کے چاق و چوبند دستے مزارِ قائد پر سلامی دیتے ہوئے — فوٹو اے ایف پی

یوم دفاع کے موقع پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب — فوٹو اے ایف پی
یوم دفاع کے موقع پر گارڈ کی تبدیلی کی تقریب — فوٹو اے ایف پی

پاک فضائیہ کی سربراہی 4 ستارے والا جرنیل کرتا ہے جسے چیف آف ایئر اسٹاف کہا جاتا ہے اور ایئر چیف مارشل کا خطاب دیا جاتا ہے۔

پاک فضائیہ میں روایت ہے کہ چیف اف ایئر اسٹاف کا عہدہ کسی لڑاکا طیارے کے پائلٹ کو ہی دیا جائے۔ 23 مارچ کو ہونے والی یومِ پاکستان کی پریڈ میں ایئر فورس کی جانب سے فلائی پاسٹ کی قیادت چیف آف ایئر اسٹاف ایئر چیف مارشل ہی کرتے ہیں، جبکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے فضائی آپریشن میں بھی ایئر چیف نے قیادت کی۔

پاک فضائیہ کی قوت کی بات کی جائے تو یہ 8 ہزار افسران اور جوانوں پر مشتمل ہے۔ پاکستان کے پاس فوجی طیاروں کی تعداد 1400 کے لگ بھگ ہے، جن میں سے 786 لڑاکا اور حملہ آور طیارے، 51 ٹرانسپورٹ طیارے اور 500 تربیتی طیارے شامل ہیں۔ پاکستان کے پاس ہیلی کاپٹرز کی تعداد 300 سے زائد ہے جس میں سے 55 حملہ آور ہیلی کاپٹرز شامل ہیں۔ جبکہ پاک فضائیہ کے پاس بغیر پائلٹ کے طیارے بھی موجود ہیں۔

ابتدائی طور پر پاکستان فضائیہ کا طیاروں کے حصول کے لیے انحصار دیگر ملکوں پر تھا، جن میں فرانس، برطانیہ اور امریکا سرِفہرست ہیں تاہم گزشتہ 3 دہائیوں میں پاکستان نے اپنی فضائیہ کا انحصار چین اور مقامی پیداوار پر منتقل کیا ہے۔

پاکستان فضائیہ کے پاس اس وقت 98 جے ایف 17 تھنڈر، 45 امریکی ساختہ ایف-16 طیارے، 69 میراج انٹر سیپٹر، 90 میراج اٹیکر اور 136 چینی ساختہ ایف سیون (F-7) لڑاکا طیارے موجود ہیں۔

پاکستان فضائیہ کے پاس فضا میں ایندھن بھرنے کے لیے 3 ٹینکر آئی ایل 78 بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ نگرانی اور دیگر امور کے لیے ساب، وائی ایٹ، فلیکن ٹوونٹی، کنگ ایئر 350، C130 ،CN235، وائی 12 طیارے بیڑے کا حصہ ہیں۔

پاکستان نے چین کے اشتراک سے جے ایف 17 تھنڈر طیارہ تیار کیا ہے۔ یہ طیارہ پاکستانی فضائیہ کی ضروریات کو مدِنظر رکھتے ہوئے بنانا گیا ہے۔ جے ایف 17 طیاروں کو تیزی سے اپنی مدت پوری کرنے والے میراج طیاروں کے متبادل کے طور پر استعمال کیا جائے گا، اس غرض سے ایسے بیس جہاں میراج طیارے تھے وہاں پر جے ایف 17 طیاروں کے اسکواڈرن ترتیب دیے جارہے ہیں۔

جے ایف -17 تھنڈر—اے پی پی
جے ایف -17 تھنڈر—اے پی پی

جے ایف - 17 تھنڈر—پی پی آئی
جے ایف - 17 تھنڈر—پی پی آئی

اپنی تربیت کے لحاظ سے پاک فضائیہ کو مختلف کمانڈوز میں تقسیم کیا گیا ہے جس میں نارتھ، سینٹرل اور سدرن، ایئر ڈیفنس، ایئر فورس اسٹریٹجک کمانڈ شامل ہیں۔

پاک فضائیہ کی تربیتی اکیڈمی رسالپور میں قائم ہے جہاں ہر طرح کے افسران کی تربیت کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پاک فضائیہ کا ایئر وار کالج کراچی میں قائم ہے جہاں فضائی جنگ کی حکمت عملی کی تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

—تصویر: محمد عثمان
—تصویر: محمد عثمان

—تصویر: محمد عثمان
—تصویر: محمد عثمان

پاک فضائیہ کے آپریشنل بیسز کی تعداد 14 ہے، جن میں

  • پشاور،
  • منہاس بیس کامرہ،
  • نور خان بیس،
  • ایم ایم عالم،
  • سرگودھا بیس مصحف،
  • رفیق بیس سیالکوٹ،
  • مسرور بیس کراچی،
  • فیصل بیس کراچی،
  • سمنگلی بیس کوئٹہ
  • شہباز بیس جیکب آباد،
  • پی اے ایف اکیڈمی رسالپور،
  • پی اے ایف بیس مرید،
  • سکھر،
  • بھولاری جام شورو ہیں

جبکہ نان فلائینگ بیسز میں

  • کوہاٹ،
  • ملیر کراچی،
  • کورنگی کراچی،
  • سکیرا اور پی اے ایف بیس کالا باغ نتھیا گلی شامل ہیں۔

اسٹریٹجک کمانڈ فورس آرمی، نیوی، ایئر فورس

مئی 1998ء میں پاکستان نے ایٹمی طاقت بن کر ملکی دفاع میں ایک اہم سنگ میل عبور کیا تھا۔ چاغی کے پہاڑوں میں پاکستان کی جانب سے کیے جانے والے ایٹمی تجربے نے پاکستان کے دفاع کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا تھا۔ ایٹمی طاقت بننے کے ساتھ ہی پاکستان نے جوائنٹ چیف آف اسٹاف کی سربراہی میں اسٹریٹجک کمانڈ قائم کی اور پھر پاک آرمی، بحریہ اور فضائیہ نے بھی اپنی اپنی سطح پر بھی یہی کام کیا۔

آرمی اسٹریٹجک فورس کمانڈ (ASFC)

آرمی اسٹریٹجک فورس کمانڈ (اے ایس ایف سی) خطے میں پائیدار امن و تحفظ اور وطن کے خلاف کسی بھی بیرونی جارحیت کو روکنے کی ضامن اور ذمہ دار ہے۔ عام فہم زبان میں یہ فورسز پاکستان کی ایٹمی ہتھیاروں کی حامل افواج کہلاتی ہیں۔ اس کے پاس موجود ہتھیاروں میں میزائل ڈیلیوری سسٹم، بغیر پائلٹ کے ہوائی جہاز اور ایٹمی ہتھیار ہوتے ہیں۔

براق ڈرون اور براق میزائل سسٹم

اس جدید نظام کو پاکستان کی دفاعی نظام میں چند سال قبل ہی شامل کیا گیا تھا۔ براق ڈرون 20 ہزار فٹ کی بلندی پر 8 گھنٹے پرواز کی صلاحیت رکھتا ہے جو 220 کلومیٹر فی گھنٹہ رفتار پر پرواز بھرتے ہوئے 8 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بناسکتا ہے، اس کے علاوہ اس میں لگے کیمروں کی مدد سے زمین پر موجود نقل وحرکت کا بھی پتہ لگایا جاسکتا ہے۔

شاہپر یو اے وی فضا میں مسلسل 7 گھنٹے تک 200 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار پر اُڑ سکتا ہے۔ یہ بھی میزائل داغنے اور زمین کی وژؤل رپورٹنگ کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

پاکستانی ساختہ ان اسٹریٹجک یو اے ویز کو 2013ء میں پاکستان آرمی اور ایئر فورس میں شامل کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان میں تیار ہونے والے چھوٹے یو اے ویز میں اسکاؤٹ ون، اسکاؤٹ ٹو، عقاب اور ہما یو اے ویز شامل ہیں جو زمینی افواج کو ہدف کی تلاش اور علاقے کی درست معلومات کی فراہمی میں معاون ہوتے ہیں۔

میزائل سسٹم

پاکستانی ساختہ 350 کلومیٹر تک ہدف کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھنے والا براق کروز میزائل سسٹم تمام فائٹر ایئر کرافٹ پر نصب کیا جاسکتا ہے اور اس کے اسٹیلتھ ڈیزائین کی وجہ سے اس کی شناخت کرنا مشکل ہے۔

نصر میزائل سسٹم 70 کلومیٹر تک ہر طرح کے وار ہیڈ کو ہدف تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اسے آرمی اسٹریٹجک فورس کمانڈ کے پیشہ ورانہ مشقوں میں فائر بھی کیا جاچکا ہے۔

بابر کروز میزائل سسٹم 450 کلو میٹر کے دائرے میں ہر قسم کے ایٹمی ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ سسٹم خود کار میزائل لوڈنگ سے فائر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ میزائل زمین کی ساخت کے ساتھ ساتھ پرواز کرتا ہے جس کی وجہ سے ریڈار پر نشاندہی ممکن نہیں ہے۔

شاہین میزائل سسٹم 600 کلومیٹر جبکہ شاہین تھری میزائل سسٹم 2 ہزار 750 کلومیٹر تک اپنے ہدف کو نشانہ بنانے اور ہر قسم کا وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھتا ہے، اس کے علاوہ ہدف کو نشانہ بنانے والے غوری میزائل کے ساتھ پاکستان جدید ترین میزائل ٹیکنالوجی کے حامل ملکوں میں شامل ہوچکا ہے۔

نیول اسٹریٹجک فورس کمانڈ (NSFC):

پاکستان کے ایٹمی طاقت بننے کے ایک سال کے اندر ہی پاک بھارت کارگل جنگ ہوئی جس میں اس بات کا احساس پیدا ہوا کہ پاکستان بحریہ کو بھی ایٹمی جنگی کمانڈ قائم کرنا ہوگی۔ مگر تمام تر کوششوں کے باوجود یہ کمانڈ سال 2012ء میں قائم ہوسکی جس کی قیادت وائس ایڈمرل کے پاس ہے۔ یہ شعبہ پاکستان نیوی ہیڈ کوارٹر میں قائم ہے۔ اس حوالے سے پاکستان نیوی نے ایٹمی جنگ میں سیکنڈ اسٹرائیک کا نظریہ پیش کیا جس کے تحت اگر کوئی ملک پاکستان پر حملہ کرے تو نیوی فوری طور پر جوابی حملہ کرسکتی ہے۔ نیوی کے ترجمان نے اس کمانڈ کو Custodian of the Nation's 2nd strike capablity کا نام دیا۔

اے ایف اسٹریٹجک کمانڈ فورس

یہ فورس ایئر ہیڈ کوارٹر اسلام اباد میں قائم ہے جو براہِ راست ایئر چیف، صدرِ مملکت اور وزیرِاعظم پاکستان کو رپورٹ کرتی ہے۔ 80ء کی دہائی میں چیف آف ایئر اسٹاف جنرل انور شمیم نے فیصلہ کیا کہ ایک ایسی مشترکہ کمانڈ قائم کی جائے جو پاکستان کے کیمیائی اثاثوں اور تنصیبات کی حفاظت کرسکے۔ اس فیصلے کی بنیادی وجہ 1981ء میں اسرائیل کی جانب سے عراقی ایٹمی تنصیبات کے تباہ کیا جانا تھا۔ 1998ء میں اسی کمانڈ نے ایٹمی سازو سامان کو راولپنڈی سے چاغی تک پہنچانے کا فریضہ انجام دیا تھا۔