بھارت: شہریت سے محروم 19لاکھ افراد کیلئے حراستی مراکز قائم کرنے کا انکشاف

اپ ڈیٹ 12 ستمبر 2019
جن افراد کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے1 فائل فوٹو: اے پی
جن افراد کو شہریت سے محروم کیا گیا ہے ان میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے1 فائل فوٹو: اے پی

بھارت نے شمال مشرقی ریاست آسام میں شہریت سے محروم 19لاکھ رہائشی افراد کے لیے حراستی مراکز بنانا شروع کردیے ہیں۔

گزشتہ ماہ بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے تحت 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے تھے جس میں اکثریت مسلمانوں کی تھی۔

مزید پڑھیں: بھارتی ریاست آسام میں 19 لاکھ افراد شہریت سے محروم کردیے گئے

ریاست آسام نے ’غیر ملکی دراندازوں‘ کو الگ کرنے کے مقصد سے این آر سی کی حتمی فہرست جاری کی تھی جس میں 3 کروڑ 29 لاکھ لوگوں نے دستاویزات جمع کرائے تاہم حتمی فہرست میں 3 کروڑ 11 لاکھ لوگ شامل ہوسکے تھے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق شہریت سے محروم کیے جانے والے افراد میں زیادہ تر مسلمان ہیں۔

شہریت سے محروم لوگوں سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ خود کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے اپیل کرسکتے ہیں اور بھارت کے اس اقدام پر اقوام متحدہ سمیت عالمی برداری نے گہری تشویش کا اظہار کیا تھا۔

دوسری جانب بھارت کا کہنا ہے کہ ان افراد کو شہریت سے محروم کرنے کا مقصد غیرقانونی طور پر رہائش پذیر افراد کو شناخت کرنا ہے کیونکہ ان میں سے اکثر بنگلہ دیش سے ہجرت کرکے آباد ہوئے ہیں۔

اس ضمن میں ناقدین کا کہنا ہے کہ آبادی کے ریکارڈ کے حامل رجسٹر میں تبدیلی کر کے عرصے سے ریاست میں قانونی طریقے سے رہائش پذیر مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور اب ان لوگوں کو خود کو بھارتی شہری ثابت کرنے کے لیے اپنے پیدائشی سرٹیفکیٹ سمیت دیگر قانونی دستاویزات پیش کرنا ہوں گی۔

یہ بھی پڑھیں: بھارت: 'غیر مسلم' تارکین وطن کو شہریت دینے کا ترمیمی بل منظور

بھارتی ریاست آسام کے دیہی علاقوں میں غربت کے سبب اکثر افراد بچوں کی پیدائش کی دستاویزات نہیں بنوا پاتے جس کے سبب خدشہ ہے کہ ان لوگوں کو مہاجرین قرار دے کر شہریت کا حق نہیں دیا جائے گا۔

گوالپارا کے قریب ایک جگہ کام کرنے والی خاتون ملاتی ہاجونگ نے برطانوی خبر رساں ایجنسی رائٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے پاس پیدائشی سرٹیفکیٹ نہیں۔

رپورٹ کے مطابق بھارت نے شہریت سے محروم کیے جانے والے 19لاکھ افراد کے لیے حراستی مراکز قائم کرنے شروع کر دیے ہیں اور اس سلسلے میں 10 کیمپس بنانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے جن میں سے ایک گوالپارا میں واقع ہے۔

یہ ایک کیمپ فٹبال کے 7 گراؤنڈز کے برابر ہے جس میں اوسطاً 3ہزار افراد کو رکھنے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔

ناقدین نے الزام عائد کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز کا استعمال کر کے مسلمانوں کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: مودی کا ‘اونچی ذات کے غریبوں’ کیلئے کوٹہ مختص کرنے کا اعلان

البتہ حکومت کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری حکمنامے پر عملدرآمد کی کوشش کی جارہی ہے، یہ عمل ایک عرصے سے زیر التوا تھا اور اس کی تکمیل کے لیے اب سختی کے ساتھ مقررہ وقت پر عمل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔

حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ متاثرہ افراد کے پاس غیرملکی ٹریبونل میں اپیل کے لیے 120 دن ہیں اور اس میں ناکامی پر وہ آسام کی ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں بھی اپیل کر سکتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں