پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس کی روزانہ سماعت کا فیصلہ

اپ ڈیٹ 08 اکتوبر 2019
پرویز مشرف پر سنگین غداری کا کیس دائر ہے اور وہ خود ملک سے باہر ہیں—فائل فوٹو: اے پی
پرویز مشرف پر سنگین غداری کا کیس دائر ہے اور وہ خود ملک سے باہر ہیں—فائل فوٹو: اے پی

اسلام آباد: سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس سننے والی خصوصی عدالت نے دسمبر 2013 سے زیر التوا ٹرائل کو مکمل کرنے کے لیے روزانہ کی بنیاد پر کیس کی سماعت کا فیصلہ کرلیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جسٹس نذر اکبر اور جسٹس شاہد کریم پر مشتمل خصوصی عدالت کے بینچ نے غداری کیس پر سماعتوں کا آغاز کیا۔

خصوصی عدالت کی ہدایت پر وزارت قانون کی جانب سے مقرر کیے گئے وکیل دفاع رضا بشیر ایڈووکیٹ نے کیس میں دلائل کے لیے ہدایت حاصل کرنے کے لیے سابق صدر پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے درخواست دائر کی۔

مزید پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کی بریت اور التوا کی درخواستیں مسترد

تاہم عدالت نے اس درخواست پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ملزم کو پہلے ہی پاکستان پینل کوڈ (سی آر پی سی) کے سیکشن 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا ہوا ہے۔

عدالت کی جانب سے بیرسٹر سلمان صفدر کو مفرور ملزم کی نمائندگی کرنے سے روک دیا اور ایڈووکیٹ رضا بشیر طویل عرصے سے چلنے والے اس مقدمے کو ختم کرنے میں اپنی خدمات دے رہے ہیں۔

دوران سماعت ایڈووکیٹ رضا بشیر نے کہا کہ انہوں نے پرویز مشرف سے ملاقات کے لیے درخواست دائر کی اور انہوں نے اس کیس کے لیے دلائل تیار کیے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سنگین غداری کیس: پرویز مشرف کو سوال نامہ ارسال

بعد ازاں عدالت نے مختصر دلائل کے بعد جج نے مختصر وقفے کے لیے سماعت ملتوی کردی، جس کے بعد جب دوبارہ سماعت کا آغاز ہوا تو انہوں نے پراسیکیوشن سمیت وکیل دفاع کو بتایا کہ بینچ کی سربراہ جج طاہرہ صفدر موجود نہیں ہیں، جس کی وجہ سے کیس کی سماعت 8 اکتوبر تک ملتوی کی جاتی ہے۔

ساتھ ہی عدالت نے ایڈووکیٹ بشیر کو ہدایت کی کہ وہ دلائل کو تیار کریں کیونکہ غداری کیس کی اگلی تاریخ سے سماعتیں روزانہ کی بنیاد پر ہوں گی۔

غداری کیس کا پس منظر

خیال رہے کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کے خلاف وفاقی حکومت کی جانب سے وزارتِ داخلہ کے ذریعے آئین شکنی پر سنگین غداری کیس کی درخواست دائر کی گئی تھی جسے خصوصی عدالت نے 13 دسمبر 2013 کو قابلِ سماعت قرار دیتے ہوئے سابق صدر کو 24 دسمبر کو طلب کیا تھا۔

یہ درخواست پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے 3 نومبر 2007 کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر دائر کی گئی تھی۔

اس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے نومبر 2013 میں ایڈووکیٹ اکرم شیخ کو پراسیکیوشن کا سربراہ مقرر کیا تھا۔

ابتدائی طور پر جنرل (ر) پرویز مشرف کی قانونی ٹیم نے ایڈووکیٹ اکرم شیخ کی بطور چیف پراسیکیوٹر تعیناتی چیلنج کی تھی لیکن غداری کیس کے لیے مختص خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس چیلنج کو مسترد کردیا تھا۔

فروری 2014 میں جنرل (ر) پرویز مشرف عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے جس کے بعد عدالت نے 18 فروری 2014 کو ان کے قابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کردیے تھے۔

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس میں سابق صدر پر فرد جرم عائد کی تھی جبکہ اسی سال ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے۔

عدالت نے 8 مارچ 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں کرمنل پروسیجر کوڈ (سی آر پی سی) کی دفعہ 342 کے تحت بیان ریکارڈ کروانے کے لیے طلب کیا تھا۔

بعد ازاں عدالت نے 19 جولائی 2016 کو جنرل (ر) پرویز مشرف کو مفرور قرار دے کر ان کے خلاف دائمی وارنٹ گرفتاری بھی جاری کردیے تھے اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جائیداد ضبط کرنے کا بھی حکم دے دیا تھا۔

تاہم اسلام آباد ہائیکورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی تھی جبکہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ (ای سی ایل) سے نکالنے کے حکم کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

یاد رہے کہ گزشتہ سال 2018 کے آغاز میں خصوصی عدالت نے غداری کیس کی سماعتیں دوبارہ شروع کی تھیں اور حکم دیا تھا کہ جنرل (ر) پرویز مشرف کا کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جائے، جس کے بعد مسلم لیگ (ن) کی سابق حکومت نے مئی میں عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کردیا تھا۔

بعد ازاں 11 جون 2018 کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار نے جنرل (ر) پرویز مشرف کا قومی شناختی کارڈ (این آئی سی) اور پاسپورٹ بحال کرنے کا حکم دیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں