آپ ممکنہ طور پر عرصے سے سن رہے ہوں گے کہ اپنی روزمرہ کی غذا میں سے چینی کی مقدار میں کمی لے آئیں۔

مگر جب ماہرین طب چینی کی مقدار میں کمی کا کہتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہر طرح کی مٹھاس اس میں شامل ہے، کیونکہ ایسا ہونا لگ بھگ ناممکن ہے اور نقصان دہ بھی ثابت ہوسکتا ہے، درھقیقت ہمارے جسم کو طاقت کے لیے کسی حد تک شکر کی ضرورت ہوتی ہے۔

ماہرین بنیادی طور پر مٹھاس کی مخصوص اقسام سے دوری کا مشورہ دیتے ہیں جیسے ریفائن اور پراسیس شکر المعروف چینی، جو بسکٹوں، کیک، سیریلز اور لگ بھگ ہر قسم کے پیک فوڈ میں موجود ہوتی ہے۔

اس طرح کی مٹھاس سے دوری کے متعدد فوائد ہوتے ہیں اور صرف براہ راست صحت کو ہی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ نیند میں بہتری اور کام کے لیے صلاحیت میں اضافہ ہوسکتا ہے اور کچھ بچت بھی ممکن ہوجاتی ہے۔

یہاں جانیں کہ ماہرین کیوں چاہتے ہیں کہ آپ چینی سے بنی غذاﺅں سے دوری اختیار کریں اور اس کے فوائد کیا کیا ہیں۔

توجہ مرکوز کرنے کی صلاحیت میں بہتری

کیا آپ نے کبھی محسوس کیا ہے کہ کبھی کبھار کچھ میٹھا کھانے کی خواہش بہت زیادہ کیوں ہوتی ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب آپ کی جسمانی توانائی کا انحصار چینی پر ہو تو خون میں گلوکوز کی سطح میں کمی کے نتیجے میں جسمانی توانائی بھی کم ہوتی ہے، جس سے چڑچڑا پن محسوس ہوسکتا ہے جبکہ توجہ مرکوز کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔ اس حوالے سے ماہرین کے مطابق عام چینی بہت تیزی سے غذائی نالی میں ہضم ہوجاتی ہے اور اتنی ہی تیزی سے دوران خون میں جذب بھی ہوجاتی ہے، جب بلڈ شوگر لیول اچانک بڑھتا ہے تو جسم انسولین کے اخراج کا سگنل دیتا ہے اور بلڈشوگر لیول میں تیزی سے کمی آتی ہے جس سے جسمانی توانائی بھی کم ہوجاتی ہے۔

جسمانی توانائی کو برقرار رکھنا آسان

جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ زیادہ چینی والی غذاﺅں کے استعمال سے انسولین کی سطح بڑھتی ہے، جو کچھ دیر کے لیے جسمانی توانائی بڑھاتی ہے مگر پھر اچانک بہت تیزی سے کم بھی ہوجاتی ہے۔ یعنی میٹھے انرجی ڈرنکس وغیرہ سے کچھ دیر کے لیے تو توانائی بڑھ سکتی ہے مگر بہتر یہ ہے کہ بادام یا ایسی پروٹین اور فائبر والی چیز کو ترجیح دیں جس میں قدرتی شکر موجود ہو، اس طرح کی مٹھاس سے بلڈشوگر لیول بڑھتا نہیں، جس کی وجہ اس میں فائبر کی موجودگی ہے۔

چائے یا کافی کی طلب بھی کم ہوجاتی ہے

جب چینی کے زیادہ استعمال سے جسمانی توانائی میں اچانک کمی آتی ہے تو اکثر افراد چائے یا کافی پینے کی خواہش ظاہر کرتے ہیں۔ چینی کی مقدار میں کمی کے نتیجے میں ان گرم یا میٹھے مشروبات پر زیادہ خرچہ کرنے کی بھی ضرورت نہیں رہتی۔

صحت مند نظام ہاضمہ

چینی کا زیادہ استعمال معدے کی صحت کو نقصان پہنچاتا ہے کیونکہ اس میں فائبر کی مقدار نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ فائبر وہ جز ہے جو معدے میں موجود صحت کے لیے فائدہ مند اربوں بیکٹریا کے ایندھن کا کام کرتا ہے، اس کے مقابلے میں بہت زیادہ چینی کا استعمال نقصان دہ بیکٹریا کی مقدار بڑھاتا ہے جبکہ ورم، پیٹ پھولنے اور قبض جیسے مسائل کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔

مسلز اور جوڑوں کے درد سے بچنا ممکن

ماہرین کے مطابق زیادہ چینی کا استعمال مسلز کی تکلیف اور جوڑوں میں درد کا باعث بھی بن سکتا ہے، یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ جوڑوں کا تکلیف دہ درد معیار زندگی کو کس حد تک متاثر کردیتا ہے۔

جسمانی وزن کو کنٹرول میں رکھنا آسان

جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ میٹھی غذاﺅں میں فائبر کی مقدار بہت کم ہوتی ہے اور یہ جز پیٹ کو دیر تک بھرے رکھنے میں مدد دیتا ہے۔ میٹھی غذائیں کھانے پر جلد بھوک کا احساس ہونے لگتا ہے اور لوگ معمول سے زیادہ کھانے لگتے ہیں جو طویل المعیاد بنیادوں پر موٹاپے کا باعث بھی بنتا ہے۔

نیند متاثر ہونے کا امکان

زیادہ میٹھا کھانے سے نیند کا عمل بھی متاثر ہوتا ہے کیونکہ چینی سے بننے والی اشیا آسانی سے ہضم نہیں ہوتیں، جو بدہضمی اور پیٹ پھولنے جیسے مسائل کا باعث بنتا ہے۔ یہ میٹھی غذائیں نیند میں مدد دینے والے ہارمونز پر بھی اثرانداز ہوتی ہیں، زیادہ بدتر امر یہ ہے کہ نیند کی کمی میٹھے کی خواہش کو مزید بڑھا دیتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ایک چکر جیسا ہوجاتا ہے زیادہ میٹھا اور خراب نیند۔

شفاف جلد

اس حوالے سے بہت عرصے سے بحث چل رہی ہے کہ چینی کا زیادہ استعمال کیل مہاسے کا باعث بن سکتا ہے، مگر جلد کی صحت بھی متاثر ہوسکتی ہے۔ بہت زیادہ چینی دوران خون میں جاکر glycation کا باعث بنتی ہے، جو کہ جلد میں موجود کولیگن کے ذریعے مرمت کے عمل میں رکاوٹ کا باعث بنتا ہے۔ جلد میں کولیگن کی سطح میں کمی کے نتیجے میں اس کی لچک کم ہوتی ہے اور جھریاں نمایاں ہونے لگتی ہیں۔ یقیناً عمر بڑھنے کے ساتھ جھریاں نمودار ہوتی ہیں مگر بہت زیادہ چینی کھانے سے بھی اس کا امکان بڑھتا ہے، بلکہ کیل مہاسوں کے علاوہ جلدی صحت کے کئی مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں