لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔
لکھاری لاہور میں ڈان کے ریزیڈنٹ ایڈیٹر ہیں۔

میاں محمد نواز شریف کی داستان میں نئے ابواب کا اضافہ ہو رہا ہے۔ میاں صاحب کی قید نے پرانے اور بوڑھے ہوچکے ان کے کارکنان میں مثبت جذبات پیدا کیے ہیں۔ ان کارکنان میں وہ افراد بھی شامل ہیں جو کسی زمانے میں نواز شریف پر شدید تنقید کیا کرتے تھے۔ سادہ لفظوں میں کہیں تو یہ جمہوریت پسند کیمپ ہے۔

جبکہ میاں صاحب کے بارے میں مثبت باتوں کی بہتات میں ان کے حوصلے کی نئی کہانیاں سننے کو ملتی ہیں۔ لوگوں کی ایک ناختم ہونے والی تعداد ہے جو میاں صاحب سے قید خانے میں ملاقات کے دعوے کررہی ہے۔ کہانی کے سب سے زیادہ خیالی نسخوں میں نواز شریف تقریباً گوتم بدھ کی ہی طرح درخت کے سائے تلے بیٹھے ہوئے ملتے ہیں جو قید میں آخری نجات پانے کی خاطر دنیاوی آزادی سے انکار کرچکے ہیں۔

ہر کچھ عرصے بعد قومی سوچ میں اس بات کی موجودگی کو یقینی بنانے کی خاطر پورا زور لگا کر یہ راگ الاپا جاتا ہے کہ ’میاں صاحب نے باہر جانے سے انکار کردیا ہے۔ وہ انہیں باہر بھیجنا چاہتے ہیں۔ وہ انہیں اور مریم دونوں کو ملک بدر کرنا چاہتے ہیں۔ نواز شریف کہتے ہیں کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔‘

داستان آگے بڑھتی ہے تو وہاں موجود ہیرو ماضی میں کیے گئے گناہ کا خمیازہ ادا کرتے ہوئے ملتا ہے۔ 20 برس قبل اکتوبر 1999ء میں میاں صاحب کی زندگی میں ایک نئے باب کا آغاز ہوا جس کا اختتام اس وقت اقتدار پر بالجبر قابض شخص کے ساتھ ہونے والے سمجھوتے کی صورت ہوا تھا۔ ایسا سمجھوتہ جس کے تحت وہ اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملک بدر ہوگئے تھے۔ نواز شریف کے ساتھی اب یہ دعوٰی کرتے ہیں کہ ان کی سوچ و فکر میں آنے والی تبدیلی کی وجہ بھی یہی ہے۔

آج ان کے پکّے حامی کہتے ہیں کہ میاں صاحب درحقیقت اس طاقت کے مدمقابل ہیں جو ہمیشہ سے اپنے خیالات اور اپنی مرضی کے مطابق ملکی سیاست کو چلانے کے خواہاں ہیں۔ وہ ان بے شمار لوگوں کے لیے مزاحمت کا استعارہ ہیں جو ایک خالص، کسی قسم کی ملاوٹ سے پاک نظامِ جمہوریت کے قیام کی خاطر ایک عرصے سے جدوجہد کرتے چلے آ رہے ہیں۔

بلاشبہ میاں صاحب گناہ دھوکر اور نیا جنم لے کر تاریخ کے ان چند جمہوریت پسندوں کی صف میں شامل ہوچکے ہیں جو جمہوریت کی خاطر پہنچنے والے ذاتی نقصان سمیت ماضی میں اپنے ساتھ ہونے والے تحقیرانہ سلوک پر غالب آنے میں کامیاب رہے ہیں جس کی جھلک نواز شریف کی ذاتی جدوجہد میں نظر آتی ہے۔

وہ لوگ جو لاہور میں ایک عرصے سے مقیم ہیں، جو نہ صرف میاں صاحب کو سیاسی میدان میں اترنے سے لے کر اب تک دیکھتے چلے آرہے ہیں بلکہ ان کی موجودگی سے متاثر بھی رہے ہیں وہ جانتے ہیں کہ نواز شریف کی سیاست کے شکار بننے والے چند لوگوں نے ان کے نئے اوتار کی حمایت کرنے کے قابل بننے کے لیے اپنے اندر کی کس طرح کی ظالم روح پر قابو پایا ہوگا۔

جو لوگ یہ جانتے ہیں کہ میاں صاحب نے 1980ء میں کس طرح کی سیاست کی ہے، جب ان کے سامنے کوئی کھڑا ہوکر یہ کہتا ہے کہ جناب معذرت، کم از کم میں تو ہماری اجتماعی جمہوری ضمیر کے محافظ کے طور پر میاں صاحب کے نام کی آنکھیں بند کرکے حمایت نہیں کرپاؤں گا، تو انہیں یہ بات سمجھنے میں کوئی دقت پیش نہیں آنی چاہیے۔

80ء کی دہائی میں جب شریفوں نے لاہور کو اپنا قلعہ بنایا تھا اس لاہور اور آج کے لاہور میں فرق ہے۔ تاہم شریفوں کے اس قلعے میں کچھ ایسے چند لوگ بھی مل جائیں گے جو مسلم لیگ (ن) کے قائد کو حال ہی میں بااصول جمہوریت پسند بننے کی وجہ سے ان کا احترام کرتے ہیں تاہم وہ یہ کہنے میں ذرا بھی نہیں جھجھکتے کہ نواز شریف کو مضبوط بنانے اور ان کے حالیہ اوتار کی کھلے عام حمایت کرنے سے بوجہ قاصر ہیں۔ جی ہاں، بوجہ قاصر ہیں، بالکل انکاری نہیں۔

یہ لوگ انکار کی طاقت کب کی کھو چکے ہیں اور ٹھیک اسی طرح مغلوب ہیں جیسے یہ اس خاص قسم کی سیاست کے ہاتھوں مغلوب تھے جس پر مسلم لیگ (ن) ایک طویل عرصے تک بڑے شوق سے عمل پیرا رہی۔

یہ لوگ آج کے مقبول جمہوریت پسند رہنما کے ساتھ اس لیے کھڑے نہیں ہوسکتے کیونکہ ان کی طاقت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ طویل عرصے سے سیاسی طور پر انکاری ان لوگوں کا کہنا ہے کہ میاں صاحب نے ہم تک پہنچتے پہنچتے دیر کردی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’دونوں گروہ‘ اب ایک دوسرے کو کچھ زیادہ سہارا فراہم نہیں کرسکتے۔

موجودہ لاہور اس لاہور سے مختلف ہے جہاں میاں صاحب نے اپنی ابتدائی سیاسی لڑائیاں لڑی تھیں۔ پھر جس طرح اقتدار کے صحیح حقدار کے نئے نویلے دعویدار اکثر کرتے ہیں، نواز شریف نے بھی اقتدار کو جاتے مختصر ترین راستے کو ڈھونڈنے کی خواہش اور اپنے گروہ اور آپشنز چُنے۔

1985ء کے ’غیر جماعتی‘ انتخابات اسی کی ایک مثال ہے۔ ان انتخابات میں انہوں نے بڑی آسانی سے قومی اور پنجاب کی صوبائی اسمبلی میں کامیابی حاصل کی۔ پھر جب یہ بات آشکار ہوئی کہ اسپانسرز چاہتے ہیں کہ وہ پنجاب کی وزارتِ اعلیٰ کا منصب سنبھالیں تو انہوں نے قومی اسمبلی کی نشست جماعت اسلامی کو تحفے میں دے دی۔

انہوں نے یہ نشست کلثوم، شہباز، بلال یاسین، یہاں تک کہ مریم کو دینے کے بجائے جماعت اسلامی کو دی جو ملک کے اندر پارسائی و پاکیزگی کے نام پر نظریاتی جنگجوؤں کو بڑھاوا دینے میں مرکزی کردار ادا کر رہی تھی۔

یہی وہ وقت تھا جب لاہور میں ووٹوں کے بدلے نوکریاں دی جانے لگیں۔ ثبوت کے ساتھ یہ بات بتائی گئی کہ اگر آپ کی جیب میں ووٹوں کی اچھی خاصی تعداد ہوتی یا آپ کے پیچھے برادری کھڑی ہوتی تو آپ کو پولیس، انکم ٹیکس، ایکسائز یا ایل ڈی اے جیسے بدنام محکموں میں سے کسی نہ کسی ایک میں نوکری کرنے کے لیے اہل قرار دے دیا جاتا۔

چلیے ملازمتوں اور کرپشن کے موضوع کو پھر کسی دن چھیڑیں گے مگر اس کرپشن اور ساتھ ساتھ جماعت سے اختلاف رکھنے والوں کو جھاڑ پلائی اور پھر اس کی بنا پر ایک نیا سیاسی ماحول پیدا ہوا۔ پھر کچھ عرصے بعد انہوں نے ایک ایسے شخص کو صلاح مشورے کے بعد منتخب کیا جو کسی وقت میں جماعت کے کارکن تھے اور جنہوں نے آگے چل کر جماعت کو دھوکہ دیا۔

کچھ عرصے بعد انہوں نے شہباز شریف جیسے اپنے لائق ساتھیوں کی مدد سے ڈیولپمنٹ کا اپنا برانڈ متعارف کروایا۔ کچھ ہی عرصے بعد وہ ایک کسی ایسے شخص کے زیرِ حفاظت و حمایت کے طور پر نظر آنے لگے جو اپنے بل بوتے پر ہی عوامی جذبات کو اپنی مرضی کا رخ دینے کی طاقت رکھتا ہے۔ تاہم اس وقت ان لوگوں کو کمزور کیے جانے کا عمل بنا رکے جاری رہا جو ماضی میں ان کے ساتھ کھڑے ہوسکتے تھے اور آج بھی ان کی حمایت میں آگے بڑھتے۔

وہ ادارے جو عوامی امنگوں اور خواہشات کو آواز دینے یا ظاہر کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے انہیں بے دردی سے کچلا گیا۔ ٹریڈ یونین، طلبہ یونین اور ان دیگر مراکز اور ذرائع کو منظم انداز میں تہہ و بالا کیا گیا جو عوام کے ترقی پسند خیالات کو آواز دینے میں مدد کرسکتے تھے، ٹھیک ویسے ہی جیسے ان ووٹوں میں کمی لائی گئی جو اس نظام کے خلاف کسی قسم کی مزاحمت چاہتے تھے جسے چلانے میں میاں صاحب مددگار رہے اور پرانے کلچر کی جگہ ایک ایسا نیا ماڈل متعارف کروا دیا گیا جہاں عوامی خواہشات کو صرف چند بنیادی شہری سہولیات تک ہی محدود کیا جاسکے۔

یہ ماڈل گزشتہ ساڑھے 3 دہائیوں سے رائج ہے جس کے نتائج تباہ کن رہے ہیں کہ جو لوگ میاں صاحب کو مضبوط کرنے کے خواہاں ہوتے وہ اب اس دنیا سے کوچ کرچکے ہیں۔ کئی دیگر جو اس وقت حیات ہیں وہ ایسا کچھ کرنے سے قاصر ہیں۔ ان میں اتنی زیادہ کڑواہٹ اتر آئی ہے اور وہ اس قدر کمزور حالت میں ہیں کہ ان کی حمایت کو زیادہ سنجیدگی سے ہی نہیں لیا جائے گا۔


*یہ مضمون 4 اکتوبر 2019ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔**

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں