عراق میں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت، 93 ہلاکتوں کی تصدیق

اپ ڈیٹ 05 اکتوبر 2019
عراقی حکومت کے خلاف مظاہروں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے—فوٹو:اے ایف پی
عراقی حکومت کے خلاف مظاہروں میں اکثریت نوجوانوں کی ہے—فوٹو:اے ایف پی

عراقی حکومت کی جانب سے دارالحکومت بغداد سے کرفیو ہٹانے کے باوجود مظاہروں میں مزید شدت آگئی جہاں پولیس کے ساتھ تصادم اور فائرنگ کے نتیجے میں 100 افراد کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں جبکہ انسانی حقوق کمیشن نے 93 ہلاکتوں کی تصدیق کر دی ہے۔

غیر ملکی خبر ایجنسی 'اے ایف پی' کی رپورٹ کے مطابق یکم اکتوبر کو عراق میں بے روزگاری، کرپشن کے خلاف اور حکومت کی تبدیلی کے مطالبے پر شروع ہونے والے احتجاج میں شدت آگئی ہے۔

پارلیمانی انسانی حقوق کمیشن کا کہنا تھا کہ احتجاج عراق کے جنوبی علاقوں میں تمام شہروں تک پھیل گیا ہے اور اب تک ہلاکتوں کی تعداد 93 ہوگئی ہے اور 4 ہزار افراد زخمی ہوچکے ہیں۔

عراق کے بااثر مذہبی رہنما مقتدیٰ الصدر نے بھی مظاہرین کی حمایت کرتے ہوئے وزیر اعظم عادل عبدالمہدی سے استعفیٰ دینے کا مطالبہ کردیا۔

پارلیمنٹ کے اسپیکر محمد الحالبوسی نے معاملے پر سیشن کی صدارت سے قبل مظاہرین کی حمایت کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ‘آپ کی آواز سنائی جارہی ہے’۔

مزید پڑھیں: عراق: حکومت مخالف مظاہرے، تصادم سے ہلاکتوں کی تعداد 53 ہوگئی

رپورٹ کے مطابق بغداد میں عائد کرفیو اور احتجاج کے باعث اشیا کی قیمتوں میں مزید دو گنا اضافہ ہوگیا ہے۔

حکومت کی جانب سے دن کے اوقات میں عائد کرفیو کو ہٹا دیا گیا ہے جس کے بعد تحریر اسکوائر میں صبح ہی سے مظاہرین جمع ہونا شروع ہوگئے، تاہم کئی علاقے باقاعدہ طور پر کھل نہیں سکے جبکہ انٹرنیٹ کی سروس بدستور معطل ہے۔

ہمارا کسی جماعت سے تعلق نہیں، مظاہرین

عراقی حکومت کے خلاف احتجاج میں اکثریت نوجوانوں کی ہے جن کا کہنا ہے کہ ان کا کسی بھی سیاسی یا مذہبی جماعت سے کوئی تعلق نہیں ہے اور ساتھ سیاست دانوں کے کردار پر بھی تنقید کی۔

ایک نوجوان کا کہنا تھا کہ ‘یہ حضرات ہماری نمائندگی نہیں کرتے، ہمیں کسی پارٹی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ کوئی ہمارے نام سے بات کرے’۔

یہ بھی پڑھیں: عراق میں حکومت مخالف مظاہرے،جھڑپوں میں 28 افراد ہلاک

مظاہروں میں عراقی نوجوانوں کے شانہ بشانہ بزرگ بھی کھڑے ہیں اور ان ہی میں سے ایک 70 سالہ ابو صالح کا کہنا تھا کہ جب تک عراقیوں کو حقیقی تبدیلی نظر نہیں آتی سڑکیں بھر جائیں گے۔

ان کاکہنا تھا کہ ‘اگر معیار زندگی بہتر نہیں کیا جاتا تو مظاہرین مزید سختی سے سامنے آئیں گے’۔

خیال رہے کہ وزیر اعظم عادل المہدی نے ایک سال قبل ہی حکومت سنبھالی تھی اور مختصر عرصے میں ہی انہیں عوام کی جانب سے شدید احتجاج کا سامنا ہے اور انہیں سنبھالنا مشکل تر ہو چکا ہے، حالانکہ انہیں اصلاحات کی یقین دہانی پر متفقہ طور پر وزیر اعظم مقرر کیا گیا تھا۔

سیاسی تجزیہ کار سرمد البیاتی کا کہنا تھا کہ ‘عادل المہدی کو فیصلہ کن تبدیلیوں کے ساتھ آگے آنا چاہیے جس میں کرپشن کے الزامات کا سامنا کرنے والے نمایاں سیاست دانوں کو ہٹانا بھی شامل ہے’۔

سنگاپور یونیورسٹی کے مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ کے ماہر فرنار حداد کا کہنا تھا کہ عراق میں سیاسی اور مذہبی اختلافات شدید انداز میں پائے جاتے تھے جہاں احتجاج پارٹی یا فرقے کی بنیاد پر ہوتا تھا لیکن گزشتہ پانچ دن بڑے غیر معمولی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘یہ پہلا موقع ہے جب عوام یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کو گرانا چاہتے ہیں’۔

تبصرے (0) بند ہیں