امریکی فنانس بل میں بھارت سے مقبوضہ کشمیر کا محاصرہ ختم کرنے کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 06 اکتوبر 2019
ترمیم میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پیدا کیے جانے والے سنگین انسانی بحران کی نشاندہی کی گئی  — فائل فوٹو: اے پی
ترمیم میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں پیدا کیے جانے والے سنگین انسانی بحران کی نشاندہی کی گئی — فائل فوٹو: اے پی

واشنگٹن: امریکی سینیٹ کمیٹی نے فنانس بل میں کی گئی ترمیم میں بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کے خاتمے اور مواصلاتی روابط کی مکمل بحالی کا مطالبہ کردیا۔

امریکا میں 2020 کے لیے اسٹیٹ فارن آپریشنز اپروپریشن بل سے منسلک ترمیم سینیٹ اختصاص کمیٹی (Senate Appropriations Committee) کے ارکان کے سامنے پیش کی گئی۔

فنانس بل میں مذکورہ ترمیم کو واشنگٹن کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں 5 اگست کو لیے جانے والے بھارتی اقدام کے خلاف قانونی کارروائی کی جانب پہلے قدم کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔

امریکی سینیٹ کمیٹی نے باہمی دلچسپی کے امور پر بھارت کے ساتھ امریکی تعلقات میں اضافے پر بات کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر میں موجودہ انسانی بحران پر بھی تشویش کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: بھارت نے امریکی سینیٹر کو مقبوضہ کشمیر جانے سے روک دیا

سینیٹ کمیٹی نے بھارتی حکومت سے مقبوضہ کشمیر میں مکمل طور پر ٹیلی کمیونیکیشن اور انٹرنیٹ سروسز بحال کرنے، لاک ڈاؤن اور کرفیو کے خاتمے اور آرٹیکل 370 کے خاتمے پر گرفتار کیے گئے افراد کو رہا کرنے کا مطالبہ کیا۔

امریکی ریاست میری لینڈ کے ڈیموکریٹ سینیٹر کرس وان ہولین نے یہ ترمیم پیش کی، جس میں بھارت کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں سنگین انسانی بحران کی نشاندہی کی گئی۔

خیال رہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے قریبی اور اہم ری پبلکن سینیٹر لنزے گراہم نے امریکی سینٹ میں رپورٹ جمع کروائی تھی۔

واضح رہے کہ سینیٹر کرس وان ہولین نے امریکی وفد کے ہمراہ رواں ہفتے نئی دہلی کا دورہ کیا تھا، دورے میں بھارتی عہدیداران سے امریکا اور بھارت کے تعلقات اور مسئلہ کشمیر پر تبادلہ خیال کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا کا مقبوضہ کشمیر پر عائد پابندیاں نرم کرنے کیلئے بھارت پر دباؤ

گزشتہ روز نئی دہلی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ بھارتی حکومت نے مقبوضہ کشمیر کا دورہ کرنے اور وہاں کے حالات کا جائزہ لینے سے متعلق درخواست مسترد کردی۔

کرس وان ہولین نے یہ بھی کہا تھا کہ امریکا، کشمیر میں موجود انسانی بحران کی صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

امریکی سینیٹ کی غیر ملکی امور کی کمیٹی رواں ماہ جنوبی ایشیا میں انسانی حقوق سے متعلق ایک سماعت کرے گی جس میں مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر کارروائی کا امکان زیادہ ہے۔

خیال رہے کہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی وزیراعظم کے خطاب سے قبل 26 ستمبر کو جمع کروائے گئے دستاویز میں بھارت سے مقبوضہ کشمیر میں کیے جانے والے غیر قانونی اقدامات واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

بھارتی اخبار دی ہندو کو دیے گئے انٹرویو میں سینیٹر کرس وان ہولین نے بتایا تھا کہ سینیٹ کمیٹی کی جانب سے فنانس بل میں پیش کی گئی ترمیم متفقہ طور پر منظور کرلی گئیں جو مقبوضہ کشمیر کی صورتحال پر تشویش کا واضح اظہار تھا۔

مزید پڑھیں: امریکی خاتون رکن کانگریس کا مقبوضہ کشمیر میں مواصلاتی رابطے بحال کرنے کا مطالبہ

انہوں نے کہا کہ یہ ترمیم ایک اشارہ ہے کہ ہم مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی صورتحال کی نگرانی کررہے ہیں اور چاہتے ہیں کہ بھارتی حکومت ان خدشات کو سنجیدگی سے سمجھے۔

کرس وان ہولین نے کہا کہ وہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے نجی طور پر اپنے خدشات بیان کرنا چاہتے تھے لیکن ان سے ملاقات نہیں ہوسکی۔

گزشتہ ہفتے کرس وان ہولین نے بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر سے واشنگٹن میں ملاقات کی تھی اور مقبوضہ کشمیر سے متعلق خدشات بیان کیے تھے۔

علاوہ ازیں بھارت کا دورہ کرنے والے وفد میں شامل سینیٹر بوب مینینڈز نے بھارت کے وزیر کامرس پیوش گویال سے دہلی میں ملاقات کی تھی۔

خیال رہے کہ دونوں سینیٹرز 5 اگست سے اب تک بارہا مقبوضہ کشمیر کی صورتحال سے متعلق بیانات دے چکے ہیں۔

دی ہندو نے رپورٹ کیا کہ سینیٹر کرس وان ہولین کو سری نگر جانے سے روک دیا کیونکہ نئی دہلی غیر ملکیوں کو مقبوضہ علاقے کا دورہ کرنے کی اجازت نہیں دے رہا۔

اس حوالے سے بھارتی عہدیدار نے دی ہندو کو بتایا کہ ’بھارتی حکومت کی جانب سے 5 اگست کو آرٹیکل 370 کے خاتمے کے بعد کسی سفارت کار یا غیر ملکی صحافی کو کشمیر جانے کی اجازت نہیں دی گئی‘۔

خیال رہے کہ امریکی قانون ساز پر کشمیر میں جاری انسانی بحران کے خاتمے کے لیے صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرنے کا دباؤ ڈال رہے ہیں۔


یہ خبر 6 اکتوبر 2019 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں