سینیٹ کمیٹی کا 'ڈینگی' کے خلاف جنگ کا اعلان

08 اکتوبر 2019
کمیٹی نے ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے و اٹھائے گئے اقدامات پر مفصل رپورٹ طلب کر لی — فائل فوٹو / اے ایف پی
کمیٹی نے ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے و اٹھائے گئے اقدامات پر مفصل رپورٹ طلب کر لی — فائل فوٹو / اے ایف پی

سینیٹ کی قائمہ کمیٹی نے ملک بھر میں مچھر کے کاٹنے سے ہونے والے مرض 'ڈینگی' کے خلاف جنگ کرنے کا اعلان کردیا۔

سینیٹر رحمٰن ملک کی زیر صدارت سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کا اجلاس ہوا۔

رحمٰن ملک نے اسلام آباد میں ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا اور ڈینگی کے مریضوں کی تعداد میں اضافے و اٹھائے گئے اقدامات پر مفصل رپورٹ طلب کر لی۔

چیئرمین کمیٹی نے میئر، چیئرمین کیپیٹل ڈیولپمنٹ اتھارٹی (سی ڈی اے) اور چیف کمشنر اسلام آباد سے ڈینگی پر رپورٹ طلب کی۔

میٹروپولیٹن کارپوریشن اسلام آباد (ایم سی آئی) کے ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ نے قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کو اسلام آباد میں ڈینگی کے خلاف اٹھائے گئے اقدامات پر بریفنگ دی۔

یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں ڈینگی کے 12 ہزار کیسز کی تصدیق

سینیٹر رحمٰن ملک نے کہا کہ شہری علاقوں سے زیادہ دیہی علاقوں میں ڈینگی کے مریض رپورٹ ہو رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آج قائمہ کمیٹی برائے داخلہ ڈینگی کے خلاف جنگ کا اعلان کرتی ہے، ہر علاقے کا کونسلر ذمہ دار ہو کہ وہ اپنے علاقے میں ڈینگی کے خلاف اقدامات کا جائزہ لیتا رہے، جبکہ ہر محلہ اور کونسل ڈینگی کے خلاف کمیٹیاں بنائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ڈینگی کے خلاف قانون سازی کریں گے تاکہ اس کا خاتمہ ممکن بنایا جاسکے، ملک بھر میں ڈینگی کی روک تھام کے لیے ایس او پیز وضع کیے جائیں، جبکہ اسلام آباد میں کھڑے پانی کا جلد سے جلد نکاس یقینی بنایا جائے اور اسپرے کا استعمال کیا جائے۔

چیئرمین قائمہ کمیٹی نے مزید ہدایت کی کہ ڈینگی کی روک تھام کے لیے سری لنکا کے ہائی کمشنر کے ذریعے سری لنکن حکومت کی مدد لی جائے۔

مزید پڑھیں: ملک کے مختلف علاقوں میں ڈینگی کی صورتحال تشویشناک

واضح رہے کہ گزشتہ کئی ہفتے سے 'ڈینگی' نے ملک کے بڑے حصے کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا اور پنجاب، خیبر پختونخوا، بلوچستان اور کراچی میں اب تک ہزاروں افراد ڈینگی مچھر کے ڈنک کا شکار بن چکے ہیں۔

ڈینگی کا شکار ہو کر کراچی اور راولپنڈی سمیت ملک کے کئی شہروں میں متعدد افراد جان کی بازی بھی ہار چکے ہیں، جبکہ سیکڑوں مختلف ہسپتالوں میں زیر علاج ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں