بھارت نے مقبوضہ کشمیر کے 3 سیاستدانوں کو رہا کردیا

اپ ڈیٹ 11 اکتوبر 2019
بھارتی حکام نے سیاستدان یاور میر، نور محمد اور شعیب لون کو رہا کردیا ہے، رپورٹ
— فوٹو: اے ایف پی
بھارتی حکام نے سیاستدان یاور میر، نور محمد اور شعیب لون کو رہا کردیا ہے، رپورٹ — فوٹو: اے ایف پی

بھارتی حکام نے مقبوضہ کشمیر میں 2 ماہ سے جاری لاک ڈاؤن میں نرمی کے لیے عالمی دباؤ کے باعث 3 سیاست دانوں کو رہا کردیا۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ ایسے وقت میں سامنے آیا جب سیکیورٹی خدشات کی وجہ سے اگست کے مہینے میں سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کے احکامات جاری کرنے کے بعد چند روز قبل ہی بھارت نے انہیں واپس آنے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا۔

تاہم 5 اگست کو مقبوضہ کشمیر کی خود مختاری واپس لینے کے فیصلے کے بعد بھارت کی جانب سے وادی میں انٹرنیٹ اور موبائل فون سروسکی بندش اب بھی برقرار ہے، جبکہ رابطے کے لیے صرف لینڈ لائن کو کھولا گیا ہے۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر: 'کرفیو، مواصلاتی بندش کی وجہ سے کئی جانیں ضائع ہوئیں'

بھارتی خبر رساں ادارے 'پریس ٹرسٹ آف انڈیا' کے مطابق حکام نے سیاستدان یاور میر، نور محمد اور شعیب لون کو رہا کردیا ہے۔

بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے بعد متعدد کشمیری سیاست دانوں کو ان کے گھر میں نظر بند یا حراست میں لے لیا تھا۔

واضح رہے کہ کشمیر پہاڑی سلسلے، اسکی ریزورٹ، دریا اور سیب کے باغات سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں تاہم بھارت کے مقبوضہ وادی کی نیم خود مختاری کو ختم کرنے کے اقدامات کی بڑے پیمانے پر مخالفت سامنے آئی اور کشمیریوں کی جانب سے احتجاج کا سلسلہ جاری ہے۔

ہاؤس بوٹ مالکان کی ایسوسی ایشن کے رہنما ولی محمد کا کہنا تھا کہ حکومت نے پہلے سیاحوں کو وادی خالی کرنے کا کہا اور اب انہیں بغیر کسی سہولت کے واپس آنے کی اجازت دے رہی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جموں کشمیر لبریشن فرنٹ آج ایل او سی کی جانب پُرامن مارچ کرے گی

ان کا کہنا تھا کہ 'یہاں نہ انٹرنیٹ ہے، نہ فون کام کرتا ہے اور کوئی ٹرانسپورٹ بھی دستیاب نہیں، سیاح یہاں آکر کیا کریں گے'۔

مشرقی بھارت کی ریاست بہار سے آئی سیاح انیتا رائے کا کہنا تھا کہ انہیں کوئی خوف نہیں تاہم انٹرنیٹ اور موبائل فون کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے پریشانیوں کا سامنا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میرے والدین پریشان ہوں گے کیونکہ میں ان سے رابطہ نہیں کرسکتی اور کوئی راستہ نہیں ہمارے پاس انہیں بتانے کا کہ ہم محفوظ ہیں، تاہم ہر طرف سیکیورٹی فورسز ہونے کی وجہ سے ہمیں کوئی خوف نہیں ہے'۔

ایک اور سیاح اتول کمار کا کہنا تھا کہ زیادہ تر دکانیں بند پڑی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 'بہتر ہوتا کہ دکانیں کھلی ہوتیں، ہمیں یہاں اکیلا پن محسوس ہورہا ہے'۔

واضح رہے کہ مقبوضہ کشمیر میں 1989 سے بھارتی حکومت کے خلاف بغاوت کا سلسلہ جاری ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں