’معیشت کیلئے کیے گئے مشکل فیصلوں کے ثمرات آنا شرو ع ہوگئے‘

12 اکتوبر 2019
معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومتی اخراجات کم کیے گئے—تصویر:ڈان نیوز
معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومتی اخراجات کم کیے گئے—تصویر:ڈان نیوز

وزیراعظم کے مشیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے مالی سال 20-2019 کی پہلی سہ ماہی کے دوران حکومتی معاشی کارکردگی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ معاشی صورتحال کے باعث حکومت نے جو مشکل فیصلے کیے اس کے نتائج آنا شروع ہوگئے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ حکومت نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف)، عالمی بینک اور ایشین ڈویلپمنٹ بینک (اے ڈی بی) کے ساتھ اچھے پروگرام شروع کیے اور ان اداروں سے 10 سال کے لیے اضافی رقوم حاصل کرکے مالیاتی ذخائر کی صورتحال کو بہتر بنایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ معاشی صورتحال بہتر بنانے کے لیے رواں مالی سال کے بجٹ میں حکومتی اخراجات کم کیے گئے، کابینہ کی تنخواہوں میں کٹوتی کی گئی، اعلیٰ سول و عسکری عہدیداروں کی تنخواہیں منجمد کی گئیں، پاک فوج کے بجٹ کو منجمد کیا گیا اور سولین حکومت کے بجٹ میں بھی 40 ارب روپے سے زائد کی کٹوتی کی گئی۔

اس کے ساتھ وزیراعظم آفس کے اخراجات میں بھی کمی کر کے یہ کوشش کی گئی کہ امیر طبقے سے ٹیکس وصول کرکے حکومت کی آمدن میں اضافہ کیا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: روزگار کے مواقع پیدا کرنے کیلئے معاشی نظام مستحکم کرنا اولین ترجیح ہے، وزیر اعظم

مشیر خزانہ نے بتایا کہ 55 کھرب روپے کا ہدف مقرر کرکے تقریباً 8 لاکھ مزید افراد کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا گیا ہے اور نوکریاں فراہم کرنے کے لیے برآمدات اور پیداوار بڑھانے کی کوششیں کی گئیں جس کے لیے برآمدات کے شعبے کو گیس، بجلی اور قرضوں میں سبسڈی دی جارہی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ رواں مالی سال کے پہلی سہ ماہی میں حکومت نے 2 اہم اور بڑے خساروں پر قابو پالیا جس میں 9 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ 30 فیصد کمی کے بعد 5 ارب 70 کروڑ روپے کی سطح پر لایا گیا جبکہ حکومتی آمدن و اخراجات کے فرق میں 36 فیصد کمی کی گئی۔

مشیر خزانہ کے مطابق گزشتہ مالی سال کی ابتدائی سہ ماہی میں مالی خسارہ 7 کھرب 38 ارب روپے تھا جسے آمدن میں اضافہ اور اخراجات کم کر کے 35 فیصد کمی کے بعد 4 کھرب 76 ارب روپے کی سطح پر لایا گیا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ حکومت کی آمدن میں 16 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ 3 ماہ کے دوران اسٹیٹ بینک سے بھی کوئی قرض نہیں لیا گیا کیوں کہ اس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے جبکہ اخراجات کو کنٹرول کرتے ہوئے کوئی سپلیمنٹری گرانٹ بھی نہیں دی گئی۔

مزید پڑھیں: رواں مالی سال: پہلی سہ ماہی میں ترسیلات زر میں کمی

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ان 2 بڑے خساروں پر قابو پانے کے علاوہ حکومت کی نان ٹیکس آمدن میں خاصہ اضافہ ہوا اور پہلی سہ ماہی کے دوران 4 کھرب 6 ارب روپے حاصل کیے گئے جو پچھلے سال کے مقابلے 140 فیصد زائد ہے۔

انہوں نے بتایا کہ بجٹ میں 12 کھرب روپے کا ہدف رکھا گیا تھا لیکن میں یہ خوش خبری دینا چاہتا ہو کہ ہم اس ہدف سے 4 کھرب روپے زائد یعنی 16 کھرب روپے کی نان ٹیکس آمدن حاصل کرلیں گے۔

عبدالحفیظ شیخ کا کہنا تھا کہ ماضی میں ایکسچینج ریٹ کو ایک سطح پر رکھنے کے لیے کئی ارب ڈالر ضائع کیے گئے لیکن ہم نے عوام کے پیسے کو محفوظ کرتے ہوئے ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی سطح پر رکھ کر برآمدات میں معاون بنانے کی کوشش کی جس کی وجہ سے گزشتہ 3 ماہ سے ایکسچینج ریٹ مستحکم ہے۔

مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر بھی مستحکم ہوگئے ہیں اور بیرونِ ملک سے پاکستان میں کی گئی سرمایہ کاری میں 3 سال کے بعد 30 کروڑ 40 لاکھ ڈالر کا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: 3 ماہ کے دوران ملک کا تجارتی خسارہ 35 فیصد تک کم ہوگیا

برآمدات کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 5 سال کے عرصے میں کوئی بہتری نہیں آئی تاہم اب حکومت کی جانب سے برآمدات کے شعبے کی مدد کرنے کے ثمرات سامنے آرہے ہیں اور برآمدات کی پیداوار میں خاصہ اضافہ ہوا جس سے نوکریوں میں بھی اضافہ ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ نوکریوں کے لیے بیرونِ ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں بھی کافی اضافہ ہوا ہے،گزشتہ سال جنوری سے اگست تک کے عرصے میں یہ تعداد 2 لاکھ 24 ہزار تھی جبکہ رواں سال اسی عرصے کے دوران 3 لاکھ 73 ہزار لوگ بیرونِ ملک گئے جس سے معیشت اور زر مبادلہ کے ذخائر میں بھی بہتری آئے گی۔

مشیر خزانہ نے بتایا کہ اسٹاک مارکیٹ میں بھی بہتری آئی ہے اور سرمایہ کاروں کا اعتماد بڑھا ہے جس کے باعث اگست سے اب تک اسٹاک مارکیٹ 28ہزار سے بڑھ کر 34 ہزار پوائنٹس کی سطح پر پہنچ گئی یوں اس میں 22 فیصد اضافہ ہوا۔

چھوٹے کاروبار کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مشیر خزانہ کا کہنا تھا کہ یہ بہت اہم شعبہ ہے جس کے بارے میں آئندہ 2 ہفتوں میں مکمل پالیسی آنے والی ہے جس سے انہیں مراعات، کاروبار میں آسانی اور منظوری میں تیزی آجائے گی۔

مزید پڑھیں: اصلاحات سے معیشت پر مثبت اثرات نمودار ہورہے ہیں، گورنر اسٹیٹ بینک

ان کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ ہر صنعت کی مدد کی جائے لہٰذا ہماری پالیسی رہی کہ 5 اہم برآمداتی شعبوں کی معاونت کی جائے تاہم اس شعبے کو وسیع کرنے کے حوالے سے خود حکومت میں بھی رائے پائی جارہی ہے اور جو ماضی میں ان فوائد سے محروم رہے انہیں بھی اس کا فائدہ پہنچایا جائے۔

مشیر خزانہ نے مالیاتی فوائد کے اعداد و شمار سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا کہ اسٹیٹ بینک کو گزشہ برس پہلی سہ ماہی میں 51 ارب کا منافع ہوا تھا جبکہ اس برس ایک کھرب 85 ارب روپے منافع حاصل ہوا۔

اسی طرح پاکستان ٹیلی کام اتھارٹی (پی ٹی اے) کا منافع پہلی سہ ماہی میں 6 ارب روپے تھا جو اس برس 70 ارب روپے ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بجٹ میں آمدن کا ہدف 12 کھرب ہونے کے باوجود 16 کھرب روپے کی امید اس وجہ سے ہے کہ ٹیلی کام سیکٹر کا منافع 30 کھرب 38 ارب روپے جبکہ اسٹیٹ بینک کو منافع 2 کھرب کا اضافی ہونے کی توقع ہے جبکہ مائع قدرتی گیس کے پلانٹ کی نجکاری سے 30 کھرب روپے حاصل ہونے کی امید ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں