شمالی شام میں موجود اپنی پوری فوج واپس بلانے کی تیاری کر رہے ہیں، امریکا

اپ ڈیٹ 14 اکتوبر 2019
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر واشنگٹن میں بھی تنقید کی گئی تھی— اے ایف پی/فائل فوٹو
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے فیصلے پر واشنگٹن میں بھی تنقید کی گئی تھی— اے ایف پی/فائل فوٹو

امریکا کے سیکریٹری دفاع مارک ایسپر کا کہنا ہے کہ امریکا شمالی شام میں موجود اپنے ایک ہزار فوجیوں کو واپس بلانے کی تیاری کر رہا ہے۔

خبر ایجنسی رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق خطے سے فوجی انخلا کی تیاریاں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسی میں تبدیلی اور داعش کے خلاف جنگ میں کرد جنگجوؤں کے ساتھ تعاون کے لیے تعینات فوج کو واپس بلانے کے فیصلے کے بعد سامنے آئی ہیں۔

امریکا کے اس فیصلے سے ترکی کو شامی جمہوری فورسز (ایس ڈی ایف) کے خلاف کارروائی کرنے کا موقع ملا تھا۔

مزید پڑھیں: ترکی نے شام میں کردوں پر حملہ کیوں کیا؟

مارک ایسپر نے امریکی نشریاتی ادارے سی بی ایس کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ 'گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ ترک اپنے حملوں کو مزید بڑھاتے ہوئے جنوب اور پھر مغرب کی جانب بڑھیں گے'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہمیں یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ایس ڈی ایف معاہدہ کرنا چاہتا ہے اور اگر ایسا ہوسکا تو پھر شام اور روس کے زیر کنٹرول علاقے شمال میں ترک فوج پر جوابی حملے کیے جاسکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ 'میری صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہفتے کی رات کو بات ہوئی تھی اور انہوں نے ہدایت دی ہے کہ امریکی فوج کو شمالی شام سے واپس بلایا جائے'۔

دریں اثنا دو امریکی دفاعی حکام کا کہنا تھا کہ کم تعداد میں امریکی فوجی شمالی شام میں عین عیسیٰ شہر کو چھوڑ کر جاچکے ہیں'۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عہدیداروں نے بتایا کہ 'فوج کو ترک حملوں کی زد میں آنے کا خدشہ تھا جس کی وجہ سے انہیں وہاں سے نکالا گیا ہے'۔

واضح رہے کہ ترکی نے شام میں کرد جنگجووں، جسے وہ دہشت گرد قرار دیتا ہے، کے خلاف فوجی آپریشن کا فیصلہ ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اپنی فوج کو وہاں سے بے دخل کرنے کے اچانک فیصلے کے فوری بعد کیا، جبکہ ٹرمپ کے فیصلے کو واشنگٹن میں تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ترکی نے شام میں فوجی بیس کو نشانہ بنانے کا امریکی الزام مسترد کردیا

کرد جنگجو شام میں امریکی اتحادی تھے اسی لیے ٹرمپ کے اچانک فیصلے کو واشنگٹن میں اپنے اتحادیوں سے دھوکے سے تعبیر کیا گیا۔

ٹرمپ کے فیصلے کو کرد جنگجوؤں نے بھی ‘پیٹھ میں چھرا گونپنے’ کے مترادف قرار دیا تھا، تاہم امریکی صدر نے اس تاثر کو رد کردیا۔

مزید پڑھیں: ترکی کا شام میں 342 کرد جنگجوؤں کی ہلاکت کا دعویٰ

ترکی کا کئی برسوں سے یہ موقف ہے کہ شام میں موجود کرد جنگجو 'دہشت گرد' ہمارے ملک میں انتہا پسند کارروائیوں میں ملوث ہیں اور انہیں کسی قسم کا خطرہ بننے سے روکنا ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے چند روز قبل فوج کو کرد جنگجوؤں کے خلاف آپریشن کی اجازت دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کا مقصد ترکی کی جنوبی سرحد میں ‘دہشت گردوں کی راہداری’ کو ختم کرنا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں