دوران حمل تناؤ لڑکے کی جگہ لڑکی کی پیدائش کا امکان بڑھائے، تحقیق

اپ ڈیٹ 15 اکتوبر 2019
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

دوران حمل اگر خواتین کو جسمانی یا ذہنی طور پر شدید تناﺅ کا سامنا ہو تو ان کے ہاں بیٹے کی جگہ بیٹی کی پیدائش کا امکان بڑھ جاتا ہے جبکہ قبل از وقت پیدائش کا بھی خطرہ ہوتا ہے۔

یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ماں کا رحم بچے کا پہلا گھر ہوتا ہے اور ہم پہلے سے جانتے ہیں کہ لڑکے وہاں زیادہ کمزور ہوتے ہیں۔

ویسے قدرتی طور پر اوسطاً ہر سو بچیوں کے ساتھ 105 لڑکوں کی پیدائش ہوتی ہے مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسی حاملہ خواتین جو ہائی بلڈ پریشر اور دیگر جسمانی تناﺅ کی علامات کی شکار ہوتی ہیں، ان میں یہ شرح ہر 9 لڑکیوں پر 4 لڑکے ہوتی ہے۔

اسی طرح ذہنی تناﺅ کا سامنا کرنے والی خواتین میں یہ شرح ہر 3 لڑکیوں پر 2 لڑکوں کی ہے۔

تحقیق کے مطابق جسمانی دباﺅ کا شکار خواتین میں بچے کی پیدائش قبل از وقت ہونے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر ذہنی تناﺅ کو دیگر پیچیدگیوں جیسے لیبر میں زیادہ وقت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

محققین کا کہنا تھا کہ حاملہ خواتین کو سماجی طور پر تعاون ملے یعنی کوئی ان سے بات کرے یا ان کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کرے تو قبل از وقت پیدائش کا خطرہ ختم ہوجاتا ہے۔

مگر زیادہ حیران کن دریافت یہ تھی کہ ماں کو جتنا لوگوں کا تعاون ملے گا، لڑکے کی پیدائش کا امکان بھی اتنا زیادہ ہوگا۔

محققین کا اس بارے میں کہنا تھا کہ یہ تعاون خاندان اور دوستوں کا ہوسکتا ہے، یہ کسی مذہبی برادری سے جڑنے کا احساس ہوسکتا ہے اور یہ سماجی تعلق تناﺅ کے تجربے کے خلاف ڈھال کا کام کرتا ہے۔

اس سے قبل ماضی میں تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے آچکی ہے کہ 30 فیصد حاملہ خواتین کو ذہنی تناﺅ، ڈپریشن یا ذہنی بے چینی وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔

اس نئی تحقیق میں تو حمل پر تناﺅ کے اثرات کا جائزہ نہیں لیا گیا مگر ماضی کی رپورٹس کے مطابق اس حوالے سے ایک ہارمون کورٹیسول اہم کردار ادا کرتا ہے۔

کورٹیسول کی سطح بلند ہونے سے بلڈ پریشر بڑھتا ہے اور بیماری کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔

خیال رہے کہ اس نئی تحقیق کے نتائج لڑکے یا لڑکی کی پیدائش کی شرح میں تعلق تو بیان کرتے ہیں مگر یہ پتھر پر لکیر نہیں۔

تحقیق کے نتائج طبی جریدے پی این اے ایس میں شائع ہوئے۔

تبصرے (0) بند ہیں